سوال (1227)

اس دور میں لونڈیوں کا کیا حکم ہے کیا لونڈی رکھنا منع ہے؟

جواب

مدت ہوئی غلاموں اور لونڈیوں کا وجود معدوم ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

سوال: لونڈیوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ یعنی جس طرح آج کل جنگ کی صورتحال ہے اور کوئی خاتون پائلٹ پکڑی جائے اس بارے میں  شریعت کا کیا حکم ہوگا؟

جواب: اگر اسلامی نظام ہو تو وہ مال غنیمت میں شمار ہوگی اور لونڈی ہی بنے گی، البتہ چونکہ اسلامی نظام نہیں ہے، شائید کوئی قانونی مسئلہ ہو، باقی ایسا بھی نہیں ہے کہ جس کے ہاتھ لگے وہ لے جائے، بلکہ کئی قوانین و ضوابط ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: علماء و مشایخ ایک ساتھی کہہ رہے تھے کہ اب عالمی سطح پر یہ معاہدہ طے ہو چکا ہے کہ غلام اور لونڈیاں کسی صورت بھی نہیں بنائی جا سکتے ہیں، چاہے کوئی مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہوں، کسی بھی صورت میں اب کسی کو غلام یا لونڈی نہیں بنایا جا سکتا ہے، اس پر تمام مسلم ممالک نے بھی دستخط کیے ہیں تو کیا یہ بات واقعتا حقیقت پر مبنی ہے۔

جواب: ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے کئی ایک تقاریر میں اس معاہدے کا ذکر کیا ہے، غالب گمان یہی ہے کہ واقعی یہ عالمی معاہدہ طے پا چکا ہے، اگر معاہدہ ہے تو پھر اس کی پاسداری کی جائے گی۔  واللہ اعلم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

یعنی ہر قسم کے معاہدے اور شرط کی پاسداری کرنی ہے، بلکہ اولا ان پر جمع ہونا ہے اور پھر ان کی پاسداری کرنا لازم ہے۔ نعوذ باللہ من ذلك

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

“واوفوا بالعقود”

“المسلمون علی شروطھم”

الا یہ کہ وہ معاہدہ توڑیں تو پھر ہماری طرف سے بھی توڑ دیا جائیگا۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

الصلحُ جائزٌ بين المسلمينَ إلَّا صلحًا حرَّم حلالًا أو أحلَّ حرامًا والمسلمونَ على شروطِهم إلَّا شرطًا حرَّم حلالًا أو أحلَّ حرامًا،

الراوي: عمرو بن عوف المزني | المحدث: الألباني | المصدر: صحيح الترمذي | الصفحة أو الرقم: 1352 | خلاصة حكم المحدث: صحيح | التخريج: أخرجه الترمذي (1352) واللفظ له، وابن ماجه (2353) مختصراً.

فضیلۃ العالم ندیم ایاز حفظہ اللہ

سائل: یعنی تعطیل جہاد، تعطیل الحدود، تعطیل الجزیہ پر معاہدہ ہو سکتا ہے؟

جواب: شیخ میرے خیال سے بات کسی اور طرف جارہی ہے اور نتیجہ غلط اخذ کیا جارہا ہے۔

میں اپنی رائے سوال کی صورت میں کبار علمائے کرام پر چھوڑتا ہے۔ بارک اللہ فیکم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

میرے خیال سے یہاں ایک اہم نکتہ غور طلب ہے:

بین الاقوامی معاہدات کے تحت جس غلامی کو ختم کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد وہ غیر اسلامی اور غیر انسانی غلامی ہو جو ماضی میں ظلم، استحصال اور انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی تھی۔ جیسے کہ استعماری غلامی کا نظام جبکہ اسلام نے غلامی کو نہ صرف ایک بہترین ضابطے میں لایا بلکہ غلاموں کو انسانی وقار حقوق، کفالت اور آزادی کی ترغیب بھی دی۔

اسلامی شریعت میں غلام کو کھانے، لباس، رہائش اور حسنِ سلوک میں آقا کو بہت زیادہ نصیحتیں کی گئی ہیں۔

لہٰذا ممکن ہے کہ اقوامِ متحدہ کے تحت اسلامی ممالک نے ایسی غلامی کے خاتمے پر دستخط لیے ہوں جو انسان کو انسان نہ سمجھے، اور اس پر ظلم و زیادتی کرے۔

اور میرا نہیں خیال کہ اسلامی تعلیمات بھی اس طرح کی غلامی کی تائید کرتی ہیں کہ جس میں غلام یا لونڈی کو صرف مال کی حد تک سمجھا جائے نہیں۔

فضیلۃ الباحث شہریار آصف حفظہ اللہ

1926 میں ایک سلیوری کانووکیشن ہوا تھا، 1956 میں اقوام متحدہ کے تحت ایک بین الاقوامی سیمینار ہوا تھا، دنیا کے تمام ممالک جمع ہوئے ہیں، ان سب نے اتفاق کیا تھا کہ اب نہ غلام بنایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی خریدا جا سکتا ہے، اس پر مسلم ممالک بھی شامل تھے، شرعاً اس پر بات کی جا سکتی ہے، اس بات کو یونائیٹڈ نیشن نے اپنے رولز میں رکھا ہوا ہے، جس میں پاکستان اور سعودیہ سب شامل ہیں، اب اس طرح کوئی بھی لونڈیاں اور غلام نہیں بنا سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ