سوال (2735)

“ثلاثة يدعون فلا يستجاب لهم: رجل كانت تحته امراة سيئة الخلق فلم يطلقها، ورجل كان له على رجل مال فلم يشهد عليه، ورجل آتى سفيها ماله وقد قال الله عز وجل: “ولا تؤتوا السفهاء اموالك”

سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تین قسم کے آدمی دعا تو کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوتی:(۱) وہ شخص جس کی بیوی برے اخلاق والی ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے۔(۲) وہ آدمی جس نے کسی سے قرضہ لینا ہو لیکن اس پر کوئی گواہ نہ بنایا ہو اور(۳) وہ آدمی جس نے بیوقوف (یعنی مال کے انتظام کی صلاحیت نہ رکھنے والے چھوٹے یا ناتجربہ کار) آدمی کو مال دے دیا ہو، حالانکہ الله تعالیٰ نے فرمایا: اپنے اموال بیوقوفوں کے حوالے نہ کر دو۔“
[سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی : 1805]
اس حدیث میں برے اخلاق والی بیوی سے کیا مراد ہے، جبکہ دیگر احادیث میں عفو و درگزر اور مصالحت کا درس ملتا ہے؟

جواب

اس حدیث میں “امراة سيئة الخلق” سے مراد وہ عورت جس کو شوہر نے سمجھانے کے لیے بار بار کوشش کی ہے، اس کے باوجود سدھرتی نہیں ہے، آپ نے عفو و درگزر کا مظاہر کیا ہے، آپ نے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے، اب اگلا مرحلہ یہ ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

پہلے اس حدیث کو صحت وضعف کے لحاظ سے پرکھ لیں۔ پھر اس میں سے کیا مطالب ومعانی نکلتے ہیں وہ بعد میں دیکھ لیں گے۔
أولا: یہ حدیث موقوفا صحیح ہے، اور اس کا مرفوع ہونا راجح نہیں ہے۔
ثانيا: اس کا جملہ جو سوال میں پوچھا گیا ہے وہ قرآن وسنت کی کئی ایک صحیح صریح نصوص کے مخالف ہے۔ لہذا اس پر منکر ہونے کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔
والله تعالى أعلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ

کئی محققین نے اس حدیث کی اسانید کو مضطرب قرار دیا ہے اور اس کے متن کے اندر نکارت کے اشارے دیے ہیں:

هذا الحديث لا يصح رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، ومتنه منكر، كما نص على ذلك الحافظ الذهبي رحمه الله تعالى.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

بكر أبو زيد ، صالح الفوزان ، عبد العزيز آل الشيخ ، عبد العزيز بن عبد الله بن باز ” انتهى من [فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الثانية : 3 / 236]
والحديث : أورده الشيخ مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله تعالى في كتابه [أحاديث معلة ظاهرها الصحة : ص 270]

بفرض صحت حدیث جیسا کہ کئی محققین کے نزدیک یہ روایت صحیح بھی ہے تو اس کا معنی یہ ہے عورت کو سمجھانے اور مفاہمت کے تمام اصول اپنا لینے کے بعد بھی عورت بد اخلاقی یعنی کہ بد زبانی نافرمانی وغیرہ وغیرہ پر مصر رہے تو شریعت نے ایک آپشن تو دیا ہے، نہ طلاق کا جو کہ جائز بھی ہے۔
پھر بھی بندہ اس آپشن کو اختیار نہ کرے اور فقط دعا کے اوپر بھروسہ کرے کہ اللہ میری بیوی کے اخلاق اچھے کر دے تو اللہ رب العالمین اس دعا کو قبول نہیں کرتا اس صورتحال میں کہ بندہ جائز اسباب کو چھوڑ کر فقط دعا کر رہا ہے ، اس کا معنی یہ ہے کہ صرف اس مسئلے میں اس کی دعا قبول نہیں کرتا نہ کہ یہ مراد ہے کہ اللہ اس کی کوئی بھی دعا قبول نہیں کرتا۔ علامہ شاطبی اور ابوبکر الجصاص رحمھما اللہ نے یہ توجیہ بیان کی ہے۔
واللہ اعلم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

اس روایت پر ہم اسی مجموعہ میں وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ علی الراجح موقوف ہے اور حکما مرفوع ہے، کیونکہ ایسی بات رائے اور اجتہاد کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی الا کہ اس کے اجتہاد ہی ہے ہونے پر کوئی قرینہ مل جائے یا وہ کسی نص سے ٹکرا رہی ہو۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو گھر کی دہلیز بدلنے کا حکم دینا
بتاتا ہے کہ جس چیز سے خیر کی بجائے شر لازم آئے اس کو بھلے طریقے سے چھوڑ دینے میں ہی عافیت و بہتر ہے۔
سیئ الخلق سے مراد ایسی چیزیں ہیں جن پر رب العالمین نے سب سے زیادہ ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے تو جس چیز سے بچوں اور شوہر کی عزت پامال ہو خاندان کی عزت پامال ہو اس صورت میں ایسی عورت کو اپنی زندگی سے نکال دینا تب زیادہ ضروری ہے، جب شوہر باعمل اور باکردار ہو، سورہ نور سے ہمیں یہی درس اور سبق ملتا ہے۔ اگر ایسا نہیں کرتا تو وہ شوہر دیوث تو کہلائے گا ہی۔ طلاق دینا اس وقت مذموم ہے جب کوئی سخت شرعی عذر موجود نہیں ہو ۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ