سوال
(من صلى العشاء في جماعة، وصلى أربع ركعات قبل أن يخرج من المسجد؛ كان كعدل ليلة القدر).
أخرجه ابن أبي شيبة في “المصنف” (2/ 72/ 1) ، وابن نصر أيضاً عن عبد الله بن عمرو قال:
من صلى بعد العشاء الآخرة أربع ركعات، كن كعدلهن من ليلة القدر.
1: کیا درج بالا روایت مرفوعاً یا موقوفاً ثابت ہے؟
دوسرا ان کے متعلق کچھ اشکالات کی وضاحت فرمادیں۔
2: کیا یہ چار رکعات تہجد کی گیارہ رکعات نماز سے الگ تصور ہوں گی؟
3: کیا یہ ایک سلام یا دو سلام کے ساتھ پڑھی جائیں گی؟
4: کیا “مسجد سے نکلنے سے پہلے” پڑھنے کی قید موقوفاً صحیح ثابت ہے؟
5: کیا یہ چار رکعات عشاء کے بعد کی دو رکعت سنت مؤکدہ سے الگ ہیں، یا یہ رکعات پڑھ لی جائیں، تو دو رکعت سنت مؤکدہ بھی اس میں ہی شامل ہوجائیں گی؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
1: یہ روایت مرفوعاً ضعیف ہے، لیکن موقوفاً کئی ایک اسانید سے ثابت ہے، اور یہ ایسی موقوف روایت ہے جو حکماً مرفوع ہے۔
2: یہ چار رکعات قیام اللیل یا تہجد کی رکعات سے الگ ہیں۔
3: بعض دیگر اسانید میں باقاعدہ وضاحت ہے کہ یہ سب رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھی جائیں، درمیان میں سلام نہ پھیرا جائے۔ اس لیے یہ چار رکعات ایک تشہد اور ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں گی۔
4: “مسجد سے نکلنے سے پہلے” کی قید موقوفاً ثابت نہیں ہے۔
5: اس مسئلے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک یہ فضیلت والی چار رکعات، عشاء کے بعد کی دو رکعت سنتِ مؤکدہ سے الگ ہیں۔ لیکن ہمارا اجتہاد یہ ہے کہ جب عشاء کے بعد یہ چار رکعات پڑھی جائیں، تو ان شاءاللہ عشاء کے بعد والی دو رکعات سنت مؤکدہ بھی ان میں ہی شامل ہوجائیں گی۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ