“اصلاح امت کے لیے قرآن کا انداز بیان”
اسلام سے پہلے لوگوں کی بگڑی ہوئی حالت اور ہر طرح کی بے راہ روی کی اصلاح قرآن ہی کے منفرد اندازِ بیان سے ممکن تھی، ان لوگوں کی اصلاح کے لیے انسانی طاقت کو بروئے کار لانا ممکن ہی نہیں تھا، وقت کے چور، ڈاکو، قاتل، زانی، بت پرستوں کو قرآن نے صلح متقی اور موحد بنا ڈالا۔
اصلاح کے لیے قرآن کریم کا انداز: چند مثالیں
(١) “التدرج في التشريع”: (یعنی احکامات کا مرحلہ وار اور آہستہ آہستہ نازل ہونا):
۱۳ سال مکی دور میں صرف عقیدہ کی اصلاح پر زور دیا گیا جبکہ احکام کے نزول کا سلسلہ ہجرت کے بعد مدینہ میں شروع ہوا، جب ایمان پختہ ہو چکا تھا ، عقیدہ توحید درست ہوا اللہ اور تمام رسول اور آخرت پر ایمان کے تقاضے مکمل ہو چکے تو پھر مسلمان ہر طرح کے احکامات کو قبول کرنے کے لئے تیار تھے۔
جیسا کہ ام المؤمنین عائشہ فرماتی ہیں:
“إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْهُ سُورَةٌ مِنَ الْمُفَصَّلِ فِيهَا ذِكْرُ الْجَنَّةِ، وَالنَّارِ حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الْإِسْلَامِ نَزَلَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ، وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَيْءٍ : لَا تَشْرَبُوا الْخَمْرَ لَقَالُوا: لَا نَدَعُ الْخَمْرَ أَبَدًا. وَلَوْ نَزَلَ: لَا تَزْنُوا. لَقَالُوا: لَا نَدَعُ الزِّنَى أَبَدًا”(١)
مفصل سورتوں میں سب سے پہلے وہ سورت نازل ہوئی تھی، جس میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا، یہاں تک کہ لوگ اسلام کی طرف مائل ہوگئے پھر حلال اور حرام کے بارے میں احکامات نازل ہوئے اگر سب سے پہلے یہ وحی نازل ہوتی کہ تم شراب نہ پیو، لوگ یہی جواب دیتے کہ ہم شراب کبھی نہیں چھوڑیں گے، اگر سب پہلے یہ وحی نازل ہوتی کہ تم زنا نہ کرو، تو لوگ یہی جواب دیتے کہ ہم زنا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔
(۲) “مکمل دلائل اور براہین کے ساتھ احکامات کا نازل ہونا”:
قرآن کریم نے عقیدے کے متعلق جب بھی حکم دیا ہے یا کسی شرعی مسئلہ کا تو صرف حکم دے کر خاموشی اختیار نہیں کی جبکہ مکمل دلائل اور واضح براہین بھی بیان کر دیے ہیں، تاکہ سامع کے پاس انکار کرنے کی کوئی حجت باقی نہ رہے، اس لیے قرآن کے واضح عقلی اور نقلی براہین کے باجود نہ ماننے والے لوگوں کے فہم و فکر پر اللہ تعالیٰ نے اس طرح اظہار کیا ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الۡبُكۡمُ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡقِلُوۡنَ”(٢)
«بے شک تمام جانوروں سے برے اللہ کے نزدیک وہ بہرے، گونگے ہیں، جو سمجھتے نہیں»
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“لَهُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ بِهَا وَلَهُمۡ اَعۡيُنٌ لَّا يُبۡصِرُوۡنَ بِهَا وَلَهُمۡ اٰذَانٌ لَّا يَسۡمَعُوۡنَ بِهَا ؕ اُولٰۤئِكَ كَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ هُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ”(٣)
«اور بلاشبہ یقینا ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم ہی کے لیے پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں»
(٣) “مختلف معانی کا حسین امتزاج”
قرآن میں کل ١١٤ سورتیں ہیں ، کچھ لمبی ہیں ، کچھ درمیانی تو کچھ انتہائی چھوٹی ہیں ، لیکن تمام سورتوں کے مضامین اور معانی میں اس طرح کا تنوع اور حسین امتزاج ہے کہ سامع یا قاری کبھی بھی اکتاتا نہیں ہے ، لہذا جب سامع اور قاری کھلے دل کے ساتھ قرآن پڑھ رہا ہو یا سن رہا ہو تو ہر طرح کا حکم بھی بخوشی قبول کرتا جائے گا ۔
(٤) “تکرار”
انسان فطری طور پر بیان اور کلام میں تکرار کو پسند نہیں کرتا ہے، لین قرآن میں مضامین اور مقاصد کا تکرار اس انداز میں ہے کہ کوئی بھی موضوع بار بار جب بھی آتا جاتا ہے، سامع اور قاری کی دلچسپی اور انہماک ہر بار بڑھتا ہی جاتا ہے، وہ اس لیے کہ قرآن کا انداز آپ کو یہ ملے گا۔
مثلاً: عقیدہ توحید کی دعوت کا تکرار تو ہے لیکن کہیں صراحت کے ساتھ تو کہیں صرف اشارہ، کبھی ایجاز سے تو کبھی اطناب، کہیں صرف عقیدہ اپنانے کا حکم ہے تو کہیں دلائل کا ذکر ساتھ ہے، کبھی ایک دلیل ہے تو کسی جگہ کئی دلائل ہیں اور پھر کسی جگہ مثالیں بھی ساتھ ہیں، تو کہیں کسی قصے کے ذکر میں توحید کا حکم آ جاتا ہے، کسی جگہ توحید اپنانے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّ الَّذِيۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَيۡهِمُ الۡمَلٰٓئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَـنَّةِ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ”(٤)
«بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جائو جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے»
کسی جگہ انکار کرنے والوں کے لیے ڈراوے اور وعید۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا:
“اِنَّهٗ مَنۡ يُّشۡرِكۡ بِاللّٰهِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ الۡجَـنَّةَ وَمَاۡوٰٮهُ النَّارُ ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ”(٥)
«بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شریک بنائے سو یقینا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں»
یہی وجہ ہے کہ سامع اور قاری کبھی بھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے ہیں ، حتی کہ ایک ہی صورت بار بار پڑھنے اور سننے کے باوجود بھی انسان نہیں اکتاتا، ہر جمعہ سورہ کہف پڑھنے کی مثال واضح ہے۔
(٥) “انسان کے فطری مزاج کو اجاگر کرنا”
قرآن نے ایک انسان کو اللہ کے قریب لانے کے لیے جو عقائد اور ایمانیات کے اجزاء بیان کیے ہیں، ان میں انسان کے اندر چھپے فطری مزاج کو چوٹ ماری ہے، تاکہ وہ ان تمام احکامات کو اپنی فطرت کے موافق سمجھ کر ان کے حصول کی کوشش کرے۔ مثلا: انسان فطری طور پر آسانی، خیر اور نعمتوں کے حصول کا خواہش مند ہوتا ہے، اور یہ بھی چاہتا ہے کہ یہ تمام چیزیں ہمیشہ اس کے پاس رہیں، لہذا انسان کے اس فطری مزاج کو اللہ تعالیٰ نے جنت کا نقشہ بیان کر کے آخرت کی طرف منتقل کیا ہے، اس طرح انسان تکلیف اور عذاب سے نفرت کرتا ہے تو جہنم کا خوف دلا کر اسے گناہوں سے نفرت دلائی گئی ہے، اس طرح انسان موت سے نفرت کرتا ہے تو جنت میں ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ کر کے اسے جنت کے لیے ابھارا گیا ہے، اس موضوع پر قرآن کریم میں آپ کو بے شمار آیات ملیں گی۔
مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّ لِلۡمُتَّقِيۡنَ مَفَازًا ۞ حَدَآئِقَ وَاَعۡنَابًا ۞ وَّكَوَاعِبَ اَتۡرَابًا ۞ وَّكَاۡسًا دِهَاقًا”(٦)
«یقینا پرہیزگاروں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ باغات اور انگور۔ اور ابھری چھاتیوں والی ہم عمر لڑکیاں۔ اور چھلکتے ہوئے پیالے»
اسی طرح سورۃ الدخان کی آیت نمبر ۴۳ سے لے کر ۵۷ تک کی آیات اس موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔
(٦) “آخرت کے ساتھ دنیا کی بھی اصلاح”
قرآن نے مکمل اعتدال کے ساتھ روح اور جسم کی ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، اس لیے آخرت میں کامیابی کے ساتھ دنیا کی اصلاح کے اصول و ضوابط بھی بیان کیے ہیں، بطور نمونہ چند مثالیں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا وَاَحۡسِنۡ كَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ وَلَا تَبۡغِ الۡـفَسَادَ فِى الۡاَرۡضِؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُفۡسِدِيۡنَ” (٧)
«اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس میں آخرت کا گھر تلاش کر اور دنیا سے اپنا حصہ مت بھول اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد مت ڈھونڈ، بے شک اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا»
یہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ دنیوی رزق بھی مجھ سے کا طلب کرو:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ” (٨)
«سو تم اللہ کے ہاں ہی رزق تلاش کرو اور اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر کرو، اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے»
اس لیے دین اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں۔
یہ وہ تمام خوبیاں میں جو قرآن کے بیان میں آپ کو بدرجہ اتم ملیں گی، جس کی وجہ سے اس کتاب کو غور و فکر کر کے پڑھنے والا بڑے سے بڑا گہنگار بھی اپنی اصلاح کر لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) : (صحيح البخاري : ٤٩٩٣)
(٢) : (الأنفال : ٢٢)
(٣) : (الأعراف : ١٧٩)
(٤) : (فصلت : ٣٠)
(٥) : (المائدة : ٧٢)
(٦) : (النبإ : ٣١ تا ٣٤)
(٧) : (القصص : ٧٧)
(٨) : (العنكبوت : ١٧)
تحریر: افضل ظہیر جمالی