اسلام کا معاشرتی نظام
اداکارہ عائشہ خان کی اپنی رہائش گاہ میں تنہا موت۔
یہ محض ایک خاتون کی موت نہیں، بلکہ ایک بے حس بیٹے، بے حس بیٹی، بے حس پڑوسی، بے حس کولیگز اور بے حس معاشرے کا کھلا ثبوت ہے۔
یہ واقعہ ہمارے خاندانی نظام، رشتوں کے تقدس، اور سماجی ذمہ داریوں پر ایک زوردار سوالیہ نشان ہے۔
سوشل میڈیا کی ہلچل: مگر عمل کہاں؟
سوشل میڈیا پر مختلف آراء سامنے آئیں:
کوئی اولڈ ہومز بنانے کی تجویز دے رہا ہے
کوئی جوائنٹ فیملی سسٹم کی واپسی کا مطالبہ
کوئی معاشرے پر تنقید، تو کوئی ہمدردی کے چند الفاظ
مگر اصل سوال یہ ہے:
کیا یہ سب جذبات محض سوشل میڈیا تک محدود رہیں گے یا ہم اس واقعے سے کوئی عملی سبق بھی سیکھیں گے؟
اسلام کا معاشرتی نظام انفرادیت پسندی پر نہیں، بلکہ اجتماعیت، تعلق، اور ذمہ داری پر قائم ہے۔ یہ نظام فرد، خاندان، اور معاشرے کے درمیان توازن، تعاون اور ہمدردی کو فروغ دیتا ہے۔اسلامی معاشرتی نظام میں بزرگوں کی عزت و خدمت ایک فریضہ ہےوَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (النساء: 36)
“اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔”
اس نظام میں پڑوسیوں کے حقوق کی از حد تاکید ہے۔
ما زال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت أنه سيورثه (بخاری و مسلم)
“جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میں اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے گمان ہوا وہ اسے وارث بنا دیں گے۔”
اس نظام میں بزرگوں کا مقام اور احترام لازم کر دیا گیا۔
ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويوقر كبيرنا” (ترمذی)
“وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے۔”
اس نظام میں بیواؤں اور تنہا خواتین کی کفالت ان کی اولیاء کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔
“الساعي على الأرملة والمسكين كالمجاهد في سبيل الله” (بخاری و مسلم)
“بیوہ اور مسکین کی کفالت کرنے والا ایسا ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔”
لیکن افسوس صد افسوس مغربی نقالی کی اندھا دھند دوڑ نے ہمیں کسی کا نہ چھوڑا۔
جب ہم نے مغربی اندازِ زندگی کو اپنایا
جوائنٹ فیملی ختم
اولاد کا والدین سے تعلق رسمی
سوشل میڈیا کا قرب، حقیقی تعلقات سے دوری
تو اس کے نتیجے میں:
والدین تنہا
رشتے بیکار
پڑوسی بے خبر
اولاد خود غرض
ایسی ہی معاشرتی گراوٹ کا نتیجہ ہے کہ ایک مشہور فنکارہ سات دن تک مرنے کے بعد اکیلی پڑی رہی، اور کوئی خبر نہ ہوئی۔
میرے نزدیک اس کی اصل والدین کی تربیتی غلطی ہے جو اپنی اولاد کو محض دنیا پرستی کی تعلیم دے رہے ہیں۔
بہت سی مائیں اور باپ دنیاوی تعلیم کے لیے مہنگے ٹیوٹرز رکھتے ہیں لیکن اخلاقی، دینی، معاشرتی تعلیم کی شدید کمی ہے
دین کو صرف ناظرہ یا ثقافتی علامت بنا کر چھوڑ دیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اولاد کی سوچ میں دین، احترام، خدمت کا تصور نہیں اور والدین بڑھاپے میں “بوجھ” محسوس ہوتے ہیں
دنیاوی کامیابی کا بوجھ، آخرت کی ناکامی میں تبدیل
سوشل میڈیائی تعلقات نے اسے اپنے معاشرے سے کاٹ دیا یے۔اسلام کہتا ہے: حق المسلم على المسلم ست…” (مسلم)
“ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں…”
جس میں عیادت، جنازہ، ملاقات، دعا، مشورہ، ہمدردی شامل ہیں۔
مگر آج ہم مسلمانوں کے حقوق کی بجائے فالوورز گنتے ہیں
لائکس اور شیئرز اصل تعلق بن گئے ہیں
معاشرتی طور پر مظلوم خواتین: بیوائیں، مطلقات، اکیلی عورتوں کی کہانیاں سنیں تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے
آج اگر کوئی عورت بیوہ ہو مطلقہ ہو یا شادی نہ ہوئی ہو
سچ کہوں تو ایسے دل دہلا دینے والے واقعات ہمارے اردگرد موجود ہیں، مگر ہم خاموش ہیں، بے حس ہیں، اور لا تعلق ہیں۔
اسلام ہمیں حکم دیتا ہے: كالجهاد في سبيل الله”
“ایسی خواتین کی کفالت مجاہد کے برابر ہے۔”
مگر ہم انہیں۔۔۔
یہ وقت ہے کہ:
ہم اپنے گھروں، محلوں اور رشتوں میں دین کو زندہ کریں
جوائنٹ فیملی سسٹم نہ سہی، قلبی تعلق اور ذمہ داری ضرور اپنائیں
بیواؤں، مطلقات، اکیلی خواتین کے حوالے سے شرعی ذمہ داریوں کو ادا کریں
پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ زندہ کریں
والدین کی خدمت کو فرض سمجھیں
سوشل میڈیا کی دنیا سے نکل کر حقیقی رشتوں میں جئیں۔
شاہ فیض الابرار صدیقی