سوال
اسلام میں میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ میں اپنی شادی شدہ زندگی میں اسلامی نقطہ نظر سے راہنمائی چاہتا ہوں۔ میرے تین بچے ہیں، اور مجھے درج ذیل مسائل کا سامنا ہے:
میری بیوی اپنے والدین اور رشتہ داروں کو بغیر اجازت گھر بلاتی ہے، جو لمبا عرصہ میرے گھر قیام کرتے ہیں۔ بچوں اور گھر کو وقت نہیں دیتی، معمولی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں۔
اسی طرح بیوی شوہر کی باتوں کو نظر انداز کرتی ہے اور مالی خودمختاری کی بنا پر شوہر کی اجازت ضروری نہیں سمجھتی۔
بیوی نے بغیر اجازت ملازمت شروع کی، حالانکہ میں بحیثیت شوہر تمام اخراجات پورے کر رہا ہوں۔
اسی طرح وہ میری پوری تنخواہ اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
اسی طرح میں سالانہ چھٹیوں میں پاکستان جانا چاہتا ہوں، لیکن بیوی والدین کے ساتھ رہنے پر بضد ہے۔
برائے مہربانی ان مسائل پر اسلامی نقطہ نظر سے راہنمائی فرمائیں۔
مخلص، عامر رضا
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
قرآن وسنت میں میاں بیوی کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ذیل میں ان کا مختصرا ذکر کرکے، پھر آپ کے مسئلے پر شرعی رہنمائی پیش کی جاتی ہے:
بیوی کے حقوق اور شوہر کے فرائض:
1۔نان و نفقہ: شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کی خوراک، لباس اور دیگر ضروریات کا خیال رکھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ، أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ”. [سنن الترمذی: 1163]
’’اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور کھانے پینے میں اچھا سلوک کرو‘‘۔
2۔مناسب رہائش: شوہر پر واجب ہے کہ وہ بیوی کو مناسب رہائش فراہم کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُم مِّن وُجْدِكُمْ”. [الطلاق: 6]
’’ان (عورتوں) کو وہاں رکھو جہاں تم رہتے ہو اپنی استطاعت کے مطابق‘‘۔
3۔حسنِ سلوک: شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ”. [النساء: 19]
’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو‘‘۔
اور حسنِ سلوک میں یہ بھی آتا ہے کہ اس کے جذبات اور جائز خواہشات کا خیال رکھا جائے، اسی طرح اسے اپنے والدین اور رشتہ دارون سے مناسب میل جول کی اجازت دی جائے۔
شوہر کے حقوق اور بیوی کے فرائض:
1۔ شوہر کی اطاعت: بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا”. [سنن الترمذی: 1159]
“اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔”
الا یہ کہ شوہر کسی ناجائز یا حرام کام کا حکم دے تو اس کی بات نہیں مانی جائے گی۔
2۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنا: بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے۔ کیونکہ شریعت نے عورت پر معروف کاموں میں خاوند کی اطاعت کو لازم قرار دیا ہے۔
3۔ شوہر کی مرضی کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دینا: بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کی مرضی کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ، فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ”. [سنن الترمذی: 1163]
’’اور تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے‘‘۔
4۔ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال اور عزت کی حفاظت کرنا: بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال اور عزت کی حفاظت کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ”.[النساء: 34]
’’پس نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں اور غیر موجودگی میں (شوہر کے مال اور عزت) کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔
ان سب دلائل کی روشنی میں اگر آپ کی بیان کردہ صورت حال کو دیکھا جائے اور جو آپ نے بیان کیا ہے وہ واقعتا درست ہے تو آپ کی بیوی کو درج ذیل چیزوں میں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے:
1۔ آپ کی مرضی کے بغیر اپنے رشتہ داروں کو گھر میں نہ بلائے۔ بالخصوص اگر رشتہ داروں کا آنا آپ کے درمیان ناچاقی کا سبب ہے تو اس سے احتراز کرنا مزید ضروری ہو جاتا ہے۔
2۔ آپ کی بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ آپ کو اور بچوں کو وقت دے اور جو چیزیں اس فرض کی ادائیگی میں رکاوٹ ہیں، ان کو ترک کرے۔
3۔ اگر آپ بیوی کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں اور آپ اس کی ملازمت سے راضی نہیں ہیں، تو اس کے لیے ملازمت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
4۔ اسی طرح گھریلو فیصلوں کے حوالے سے یا پاکستان آنے جانے کے حوالے سے آپ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اور ان میں کوئی چیز خلافِ شریعت نہیں ہے تو بیوی کے لیے انہیں ماننا ضروری ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے شوہر کو اخراجات و سہولیات کا ذمہ دار اور قوام ٹھہرایا ہے اور بیوی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کے گھر بار کی حفاظت کرے اور اپنی من مانی نہ کرے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
“وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ”. [البقرة:228]
’ اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ‘۔
جہاں عورت خود کو قوام یا ہم پلہ یا افضل سمجھنا شروع کر دیتی ہے، وہاں معاملات الجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ میاں بیوی کو اپنے اپنے حقوق و فرائض سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ