سوال (5286)
اسلام میں مزار بنانا ناجائز ہے، تو پھر ہمارے نبی ﷺ کا بھی تو مزار ہے؟ پھر گنبدِ خضرا بھی تو ہے، تو کیا وہ بھی غلط ہے؟ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی تو مزار ہے؟
جواب
قرآن وحدیث میں دربار و مزار کی کوئی اہمیت وتعلیم بیان نہیں کی گئ ہے نہ ہی یہ سب دین اسلام کا حصہ ہے۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے تو قبر کو پختہ کرنے، اس پر بیٹھنے اور عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے.
دیکھیے صحیح مسلم:(970)ﺑﺎﺏ اﻟﻨﻬﻲ ﻋﻦ ﺗﺠﺼﻴﺺ اﻟﻘﺒﺮ ﻭاﻟﺒﻨﺎء ﻋﻠﻴﻪ،مسند أحمد بن حنبل:(14148 ،14647)،سنن أبودود:(3225)،سنن ترمذی:(1052) ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎء ﻓﻲ ﻛﺮاﻫﻴﺔ ﺗﺠﺼﻴﺺ اﻟﻘﺒﻮﺭ، ﻭاﻟﻜﺘﺎﺑﺔ عليها،السنن الکبری للبیھقی:(6762 ،6763)ﺑﺎﺏ ﻻ ﻳﺒﻨﻰ ﻋﻠﻰ اﻟﻘﺒﻮﺭ ﻭﻻ ﺗﺠﺼص
مزار بنانے کا تصور تو دور کی بات ہے دین اسلام میں بالشت بھر سے اونچی قبر کو مسمار کرنے کا حکم ہے۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ سے ایسا کرنے کا فرمایا تھا۔
ملاحظہ فرمائیں:
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﻬﻴﺎﺝ اﻷﺳﺪﻱ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﻟﻲ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ: ﺃﻻ ﺃﺑﻌﺜﻚ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﺑﻌﺜﻨﻲ ﻋﻠﻴﻪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ؟ ﺃﻥ ﻻ ﺗﺪﻉ ﺗﻤﺜﺎﻻ ﺇﻻ ﻃﻤﺴﺘﻪ ﻭﻻ ﻗﺒﺮا ﻣﺸﺮﻓﺎ ﺇﻻ ﺳﻮﻳﺘﻪ،
ابو الھیاج الاسدی رحمة الله عليه کہتے ہیں مجھے سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں اس مہم پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھیجا تھا کہ کسی بھی تصویر کو نہ چھوڑا جائے مگر اسے مٹا دیا جائے اور ہر بلند قبر کو زمین کے برابر کر دیا جائے
صحیح مسلم:(969) ﺑﺎﺏ اﻷﻣﺮ ﺑﺘﺴﻮﻳﺔ اﻟﻘﺒﺮ
رہا آپ کا یہ کہنا کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا بھی تو مزار ہے۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک سیدہ عائشہ صدیقہ کے حجرہ میں اس لئے ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اسی حجرہ میں دنیا سے تشریف لے گئے تھے اور پیغمبر کو اسی جگہ پر دفن کیا جاتا جہاں ان کی روح مبارک قبض کی جاتی ہے۔
صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے اسی موقع پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے پوچھا تھا
ملاحظہ فرمائیں:
ﻗﺎﻟﻮا: ﻳﺎ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺃﻳﺪﻓﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ ﻧﻌﻢ، ﻗﺎﻟﻮا: ﺃﻳﻦ؟ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﻤﻜﺎﻥ اﻟﺬﻱ ﻗﺒﺾ اﻟﻠﻪ ﻓﻴﻪ ﺭﻭﺣﻪ ﻓﺈﻥ اﻟﻠﻪ ﻟﻢ ﻳﻘﺒﺾ ﺭﻭﺣﻪ ﺇﻻ ﻓﻲ ﻣﻜﺎﻥ ﻃﻴﺐ ﻓﻌﻠﻤﻮا ﺃﻥ ﻗﺪ ﺻﺪﻕ
شمائل ترمذی:(397)، واللفظ له،السنن الکبری للنسائی:(7081 ،7084)، مسند عبد بن حمید:(365)، الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:(1299)، المعجم الکبیر للطبرانی:(6367)7/ 56 وغيره صحيح
یہ تو معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک پر عمارت بعد میں نہیں بنائی گئی تھی اور وہاں دفن کرنے کا ایک خاص سبب موجود تھا جو صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم کو معلوم ہوا تو وہ سن کر خاموش رہے۔
اب رہا مسئلہ گنبد بناۓ جانے کا تو عہد صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے بہت عرصہ بعد بنایا گیا ہے جو کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔
اگر کسی معزز ومکرم ہستی کی قبر پر مزار گوند بنانا دین اسلام کا حصہ ہوتا یا یہ ایک مطلوب چیز ہوتی تو صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے سب سے عظیم صحابی سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سب سے عظمت وشان والے سلطان الأولياء سید الاولین والآخرين محمد کریم صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک پر ایک نہایت عمدہ مزار تعمیر کرتے لیکن سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله عنہ،دیگر خلفائے راشدین،صحابہ کرام نے ایسا کچھ نہیں کیا حالانکہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سب سے قریب تر تھے اور سب سے زیادہ محبت وعقیدت کرنے والے اور محبت وعقیدت کے تقاضوں کو سمجھنے اور جاننے والے تھے انہوں نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ دین اسلام میں اس کی کوئی اصل موجود ہیں نہیں تھی نہ ہی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ایسی کوئی تعلیم دی تھی۔
تو کسی امتی کا غلط غیر شرعی عمل ہمارے لئیے نہ نمونے ہے نہ ہی حجت و دلیل ہے۔
جس طرح سے صحابہ کرام وسلف صالحین ان خرافات وبدعات اور توحید وایمان کے منافی چیزوں سے دور رہے ہمیں بھی اسی طرح دور رہنا ہے کیونکہ برصغیر پاک وہند میں شرک وبدعات کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب یہی دربار ومزارات ہیں۔هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
تفصیل دیکھیے، تحذير الساجد من اتخاذ القبور المساجد للأباني،
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزار وہ مروجہ مزار نہیں ہے، چھٹی صدی میں گنبذ خضراء بنایا گیا ہے، نہ اس پر بات کی جا سکتی ہے، نہ ہی اس کو بدلا جا سکتا ہے، ایسی جگہ جہاں امت مسلمہ کی محبت ہے، اہل علم اور وہاں کی حکومت کا اس پر اتفاق ہے کہ اس بات کو چھیڑنا نہیں ہے، باقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے یا اس کے علاؤہ دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ لوگوں نے بنائے ہیں، باقی جو بناتے ہیں، دلائل ان کے ذمے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ