تمہید

اسلام کے دوسرے مذاہب سے ہمارے موازنے سے پہلے تمہیدا کچھ بنیادی باتیں سمجھنا بہت ضروری ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
1. مذہب (Religion) سے مراد
انگلش کا لفظ Religion لاطینی لفظ سے نکلا ہے جس سے مراد کسی طریقے کی پابندی ہے جبکہ عربی لفظ مذہب سے مراد زندگی گزارنے کا طریقہ یا اصول ہے زندگی کی کچھ باتوں کا تعلق باطن(دل) سے اور کچھ کا ظاہر (یعنی اقوال و افعال)سے ہوتا ہےمگر چونکہ دل کی بات کا جاننا ممکن نہیں اس لئے ہم کسی کے مذہب کو اسکے اقوال و افعال سے ہی جان سکتے ہیں پس انسان اپنے اقوال و افعال کو جن اصولوں کے تحت سر انجام دیتاہے وہ اسکا مذہب کہلاتاہے
2. مذاہب کی اقسام
بنیادی طور پہ مذاہب کو دو بڑے گروہ میں تقسیم کیا جاتا ہے
a)۔ منکرمذہب و ملحد (Atheist) b ) ۔مذہبی (Theist)
مذہبی گروہ میں پھر مزید چھوٹے گروہ ہوتے ہیں مثلا Monotheism اور Polytheism جیسے عیسائی، یہودی ، مسلمان، ہندووغیرہ
3. اسلام کا مذاہب سے موازنے کا مقصد
اس موازنےکا ایک مقصدغیر مسلم کو مسلمان کرنا ہو سکتا ہے ( یہ تفصیلی موضوع بعد میں) دوسرا مقصدمسلمان کے دل کو مطمئن کرنا ہے کیونکہ آزمائشوں پہ پورا اترنے کے لئے دل کا اطمینان ضروری ہے جیسےمعراج میں جنت جہنم دکھائی گئی یا قرآن میں ہے کہ ابراھیم نے کہا کہ تو زندہ کیسے کرتا ہے تو اللہ نےکہا کیا تجھے ایمان نہیں تو ابراہیم نے کہا کہ ایمان ہے مگر دل کو مطمئن کرنا ہے۔ پس ہمارا یہی دوسرا مقصد یعنی دلی اطمینان ہے پس یہاں مختصرا موازنہ کیا گیا ہے
4. موازنے میں قابل قبول دلائل
مذاہب کے اصولوں کی بنیاد عام طور پہ مندرجہ ذیل اہم ذرائع پر ہوتی ہے
a) روایات (Traditions)
b) مذھبی نظریات (Religious thoughts)
c) عقلی دلائل (Reasoning) جسکو ہم Rationalism بھی کہتے ہیں
d) تجربہ و مشاہدہ جسکو ہم Empiricism بھی کہتے ہیں
لیکن مذاھب کے باہمی موازنہ کے لئےہمیں ایسے ذرائع کو معیار بنانا ہے جو تمام مذاھب کے لئے قابل قبول ہوں اب پہلے دو ذرائع تو موزوں نہیں کیونکہ ہر علاقے کی اپنی روایات اور ہرمذہب کے اپنے نظریات ہوتے ہیں البتہ آخری دو ذرائع ہر مذہب میں کامن اور سب کے لئے قابل قبول ہوتے ہیں موجودہ سائنسی دور میں بھی جب ہم کوئی مشاہدہ (observation) کرتے ہیں تو اس پہ اپنی عقل کے ذریعے ہی پہلے Hypothesis پیش کرتے ہیں پھر اس پہ تجربات کر کے تھیوری پیش کی جاتی ہے یعنی علم کےانہیں دو ذرائع یعنی Reasoning اور Empiricism کا سہارا لیا جاتا ہے پس یہاں بھی ہم علم کے انہیں دو ذرائع سے مذاہب کا موازنہ کریں گے

اسلام کا مذاہب سے موازنہ

سب سے پہلے ہم دو بنیادی گروہوں(ملحد و مذہبی) کا موازنہ کریں گے پھر اس میں جو بہتر ہو گا اسکا اسلام سے موازنہ کریں گے کہ کون زیادہ بہتر ہے
1. ملحد(Atheist) و مذہبی(Theist) کا موازنہ
موازنہ کا فطری معیار یہ ہے کہ جو مذہب اپنے ماننے والوں کودنیا و آخرت کی زیادہ بہتر کامیابی دلواتا ہے وہی افضل ہوتا ہے پس جب ہم اوپرتمہید کے نمبر4 میں بتائے گئے قابل قبول ذرائع یعنی عقلی دلائل اور تجربات کے تحت مذاہب کا موازنہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ملحد کے مقابلے میں مذہبی انسان زیادہ کامیاب ہوتا ہے اسکے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
a) دنیا کی کامیابی کے لئےسکون اور امن چاہئے جو فساد اور ظلم کے خاتمے کے ساتھ ہی ممکن ہے فساد روکنے کے لئے ایک تو دنیاوی قانون ہوتے ہیں مگر ان قوانین سے بچنا آسان ہوتا ہے پس فساد اور ظلم پہ قابو پانا ممکن نہیں ہوتا ان قوانین کے علاوہ فساد اور ظلم سے روکنے کی ایک اور موثر طاقت (Motivating force) ہوتی ہے وہ آخرت میں سزا جزا کے نظریہ پہ ایمان ہے یہ طاقت صرف مذہب کو ماننے والوں کے پاس ہوتی ہے منکرمذھب کے لئے قانون کے علاوہ کوئی ایسی Motivating force نہیں ہوتی کہ جو اسکو فساد یا ظلم سے روک سکے ۔دیکھیں کوئی چھپ کر جرائم کرنےسے کیوں رکے گا جب اسکو علم ہو گا کہ مجھے آخرت میں کسی کو جواب نہیں دینا صرف دنیا میں ہی جوابدہ ہوں تو وہ دنیا سے تو بہت سے طریقوں سے بچ کر ظلم اور فساد کرتا رہے گا کیونکہ قانون ہر وقت ہر جگہ نظر نہیں رکھ سکتا اسکے برعکس ایک صحیح مذہبی انسان چھپ کر جرائم کرنے سے بھی باز رہے گا کیونکہ اسکا ایمان ہو گا کہ دنیا کے قانون سے بچ بھی جاوں تو آخرت میں نہیں بچ سکوں گا پس دنیا میں امن و سکون کے لحاظ سے مذہبی انسان منکر مذہب سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے یہی فلسفہ قرآن کی سورہ بقرہ میں بھی ملتا ہےکہ آدم کی پیدائش پہ فرشتوں نے اندازہ لگایا کہ اگر انسان کو کسی مذہب کا پابند نہ کیا گیا اور ایسے ہی چھوڑ دیا گیا تو یہ دنیا میں فساد کرے گا خون بہائے گا تو اللہ نے فرمایا کہ فاما یاتینکم منی ھدی کہ میں انسان کو اپنی طرف سے ہدایت (مذھب) بھیج کر اسکا پابند کروں گا اور پھر فرمایا فمن تبع ھدی فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون کہ اگر انسان میرے دین (مذہب) پہ چلا تو پھر کوئی خون خرابہ یا فساد نہیں ہو گا۔ اس Motivating force کا خود ایک دہریے کارل مارکس نے بھی یہ کہ کر اعتراف کیا ہوا ہے کہ Religion is opium of people کہ مذھب انسان کے لئے افیون یعنی Motivating force ہے کہ یہ دے کر اپنی مرضی کا کام کروا سکتے ہیں اور جدید میڈیکل سائنس (Reasoning) ہمیں یہ بتاتی ہے کہ افیون کے غلط استعمال بھی ہو سکتے ہیں مگراکثر یہ بہت سی دوائیوں میں استعمال ہوتی ہے پس اسکا صحیح اور فطری استعمال بہت فائدہ مند اور انسان کے لئے ناگزیر ہے ہاں غلط استعمال تو چھری اور پستول کا بھی غلط ہوتا ہے پس مذھب کی طرح کی Motivating force کی مثال ہمیں فوج میں بھی ملتی ہے جہاں جان کی بازی لگانے کے لئے خالی مادیت (یعنی تنخواہ) کی لالچ کافی نہیں ہوتی بلکہ انکو دوسرے طریقوں سے بھی مائل کیا جاتا ہے تاکہ وہ جان قربان کر سکیں
b) منکر مذہب اگرچہ آخرت کامنکر ہے مگر یہ انکار اس وجہ سے نہیں کہ اسکے پاس انکار کا کوئی ٹھوس ثبوت ہے بلکہ وہ اس وجہ سے انکار کرتا ہے کہ اسکی عقل کے مطابق آخرت کے اقرار کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ۔ اب اوپر تمہید کے نمبر 4 میں بیان کی گئی عقلی دلیل (Reasoning) کے تحت ہم دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ عدم ثبوت سے عدم وجود لازم نہیں یعنی اگر آپ کے پاس کسی چیز کے وجود کا ثبوت نہیں تو اسکا مطلب یہ قطعا نہیں کہ وہ چیز موجود ہی نہیں۔ پس ہم Rationalism کو دیکھیں تو منکر مذہب کے ہاں بھی آخرت کے وجود کاکچھ نہ کچھ چانس ضرور ہے۔اب جس چیز (آخرت) کا تھوڑا سا بھی خطرہ ہو اور اس سے بچنے کا محفوظ طریقہ بھی موجود ہو اور اس محفوظ طریقہ سے دنیا کا امن بھی بڑھتا ہو (جیسا کہ اوپر دلیل میں ثابت کیا ہے) تو ایک rational (عقل مند) انسان ہمیشہ ایسا (آخرت پہ ایمان والا)راستہ اختیار کرے گا۔ کیونکہ فرض کریں کہ مرنے کے بعد سزا جزا کا چانس 0.1 فیصد ہےاور 99.9 فیصد یہ چانس ہے کہ سزا جزا نہیں تو جو انسا ن سزا جزا کا عقیدہ رکھ کر زندگی گزارے گا وہ پھر بھی فائدہ میں رہے گا کیونکہ سزا جزا ہونے یا نہ ہونے دونوں صورتوں میں اسکا آخرت کا کوئی نقصان نہیں ہو گا اسکے برعکس منکر مذہب کو مرنے کے بعد اگر سزا جزا کا سامنا کرنا پڑ گیا تو اسکا نقصان ہی نقصان ہو گا۔ اسی بات کو نوبل انعام یافتہ فلاسفر البرٹ کیمی نے کوٹ میں یوں بیان کیا ہے
I would rather live my life as if there is a God and die to find out there isn’t, than live as if there isn’t and to die to find out that there is.
c) آپ سائنس (یعنی عقل یا Reasoning) کو دیکھیں تو تقریبا نوے فیصد معاملات میں مذھب( اسلام ) یا تو سائنس کے عین مطابق ہے یا پھر اس بارےخاموش ہے صرف کچھ جگہوں پہ مذہب سائنس کے خلاف نظر آتا ہے مگر یہاں بھی مذھب (اسلام) کا نہیں بلکہ سائنس کی ترقی کا قصور ہے مثلا مذھب (اسلام) نے چودہ سو سال پہلے کل فی فلک یسبحون والی آیت میں آسمان میں ہر چیز کو متحرک کہا لیکن پرانے دور میں جب سائنس یونانیوں کے پاس تھی وہ زمین کو ساکن اور سورج کو متحرک سمجھتے تھے پھر سائنس نے ترقی کی تو سورج کو ساکن اور زمین کو متحرک کہا گیا پھر اور ترقی کی تو اب زمین اور سورج سمیت ہر گلیکسی کو بھی متحرک مان لیا گیا پس جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی تو وہ بظاہر مذہب (قرآن) کے خلاف لگتی تھی مگر اس میں قصور مذہب کا نہیں بلکہ سائنس کی ترقی کا تھا اسی بات کو مشہور فلاسفر اور انگلینڈ کے لارڈ چانسلر سر فرانسس بیکن نے اپنی کوٹ میں یوں بیان کیا
“Little Knowledge of Science makes you an Atheist but in Depth Knowledge of Science makes you a Believer in God”
اس کوٹ پہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بہت سے نامور سائنسدان خدا میں یقین نہیں رکھتے تو انکا سائنس کا علم پھر ناقص کیوں نہیں ہوتا؟ اسکا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض جہالت کی علامت ہے کیونکہ خدا کو ماننے کا صرف ایک ہی سبب یعنی سائنس کا علم نہیں کیونکہ بہت سے ایسے لوگ بھی خدا کو مانتے ہیں جن کو سائنس کاکچھ علم نہیں ہوتا۔پس خدا کو ماننے کے مختلف اسباب ہوتے ہیں جن میں سے ایک سائنس بھی ہےپس سائنس خدا کو ماننے میں کچھ حصہ ڈالتی ہے اور دوسرے اسباب بھی کنٹریبیوٹ کرتے ہیں اب ان سائنسدانوں میں دوسرے اسباب (مثلا مذھبی دلائل کا علم اور دنیاوی مفادات کا نہ ہونا وغیرہ)بالکل نہیں پائے جاتے تو خالی سائنس کا علم انکو فائدہ نہیں دیتاکہ جب مذھبی دلائل کا ہی علم نہ ہو تو سائنس اور مذھب کا موازنہ کیسے ہو گا
d) اوپرعقلی دلائل (Reasoning) کے معیار بنانے کے بعد جب ہم تجربات و مشاہدات(Empiricism) کو معیار بنا کر منکر مذہب اور مذہبی کا موازنہ کریں تو پھر بھی یہی سمجھ آتی ہے کہ جزا سزا پہ ایمان (یعنی مذھب پہ ایمان) ہی ہمارے معاشرے کو بہترین بنا سکتا ہے اور فساد کم کر سکتا ہے مثلا ہمارے تجربہ و مشاہدہ میں ہے کہ موٹر وے پہ جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی کیمرہ نہیں لگا تو وہاں اوور سپیڈنگ کر لیتے ہیں اسی سزا جزا سے ڈرنے کی انسانی فطرت کو ہی مدنظر رکھتے ہوئے پھر موٹر وے اور دوسری اہم جگہوں پہ یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ خبردار کیمرہ کی آنکھ آپکو دیکھ رہی ہے اور اسکا فائدہ بھی ہوتا ہے پس تجربہ ومشاہدہ بھی یہی کہتا ہے کہ جزا سزا والا مذھبی نظریہ ہی دنیا میں امن قائم کرنےکا باعث بننے کی صلاحیت رکھتا ہے

2. مذہبی (Theist) گروہ میں اسلام کا افضل ہونا
اوپرہم نے یہ جانا کہ دنیا میں دہریے کی نسبت مذہبی گروہ زیادہ Rational اور امن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی طرح ہم عقلی دلائل و تجربات کو سامنے رکھیں تو پتا چلتا ہے کہ مذہبی گروہ میں اسلام ہی بہتر امن قائم کرنے والامذہب ہے اسکے دلائل مندجہ ذیل ہیں
a) ہم کسی مذہب کے بہترین ہونے کو اسکے امن قائم کرنے کی صلاحیت سے جانچتے ہیں اور اوپر اسی صلاحیت کا جب ہم نے دہریے اور مذہبی میں مواازنہ کیا تووہاں سزاجزا کا عقیدہ (Motivating Force)ہونے کی بنا پر ہی مذہبی کو دہریے سے افضل اور امن قائم کرنے کے زیادہ قابل سمجھا مگر اب جب ہم مذہبی گروہ کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہی سزاجزا کا عقیدہ (Motivating Force) ہی اسلام کے علاوہ باقی مذاہب میں درست نہیں۔ پس جس سزا جزا کے عقیدہ (Motivating Force) کی وجہ سے ہی مذہبی گروہ کو منکر مذہب سے افضل ثابت کیا تھا تو اس عقیدہ میں ہی کمزوری ان مذاہب کو پھر کمزور کر دیتی ہے۔ اسکو ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ ایک جنگل ہے جہاں کوئی قانون نہیں اسکے مقابلے میں دو شہر ہیں جہاں قوانین موجود ہیں پس سب سے پہلے توامن کے لحاظ سے دونوں شہروں کو جنگل سے افضل کہا جائے گا کیونکہ جنگل میں تو کوئی قانون ہی نہیں جبکہ شہروں میں قوانین موجود ہیں۔مگر جب ان شہروں کا آپس میں امن قائم کرنے کے لحاظ سے موازنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ پہلاشہر ایسا ہے کہ وہاں قانون پہ سختی سے عمل ہوتا ہے وہاں رشوت سفارش وغیرہ قانون کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اسکے برعکس دوسرے شہر میں بظاہر قانون تو ہے مگر اس میں رشوت اور سفارش اور اقرباء پروری کا بھی راج ہے جسکی وجہ سے قانون پہ عمل ہی نہیں ہوتا وہاں شاہ زیب کا قاتل شاہ رخ جتوئی عدالت میں وکٹری کا نشان بناتا ہے اور چھوٹ جاتا ہے وہاں چیف جسٹس کی برآمد کردہ شراب کی بوتل شہید کی بوتل بن جاتی ہے پس اس شہر کو قانون کی وجہ سے ہی جنگل سے افضل قرار دیا گیا تھا مگر جب یہاں بھی قانون پہ عمل کے راست میں رکاوٹیں آئیں تو یہاں بھی امن متاثر ہوا اور اس کو جنگل کی طرح ہی سمجھا گیا بالکل اسی طرح دوسرے مذاہب والے ملحد سے تو بہتر ہوں گے مگر جس بنیاد پہ وہ بہتر قرار پائے اسی میں نقص کی وجہ سے وہ امن قائم کرنے میں اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اسلام جتنی سختی سے آخرت کے نظریے (Motivating Force) کو سپورٹ کرتا ہے دوسرا کوئی مذہب نہیں کرتا۔ اسلام کا پیغمبر کہتا ہے کہ میری بیٹی بھی چوری کرے تو اسکا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا پیغمبر اپنی بیٹی اور سارے رشتہ داروں کو اکٹھا کر کےکہتا ہے کہ اپنے اعمال درست کر لو قیامت کے دن میں تمھارے کسی کام نہیں آوں گا حتی کہ بیٹی کو کہا کہ دنیا میں میرے مال سے جو چاہئے مانگ لو قیامت کے دن میں تمھارے کسی کام نہ آ سکوں گا اسکے برعکس دوسرے مذاھب میں سزا کا نام تو لیا جاتا ہے مگر لوگوں کو سزا سے بچنے کی ایسی امیدیں دلائی جاتی ہیں کہ انکو دوسرے طریقوں سے بچنے کی امید ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے (Driving Force) انکو جرائم سے نہیں روک سکتی جیسا کہ شاہ رخ جتوئی کو پیسے کے بل بوتے پہ بچنے کی امید تھی تبھی اس نے قتل کیا پس امن قائم کرنے میں اسلام ہی اعلی مذھب ہے
b) سائنس میں دو Reactants مل کر جب کوئی پروڈکٹ بناتے ہیں تو اکثر ایک اور چیز بھی اس کیمیکل ری ایکشن میں چاہئے ہوتی ہے جسےعمل انگیز (Catalyst) یا ساز گار ماحول کہا جاتا ہے یہ کیمیکل عمل میں حصہ تو نہیں لیتا مگر اسکے بغیر عمل ہونا مشکل ہوتا ہے سائنس اور Reasoning میں اس ساز گار ماحول کی بہت اہمیت ہوتی ہے یہی بات ہم منیجمنٹ میں بھی پڑھتے ہیں کہ کسی بھی اچھے Internal control system کے لئے جو چیز اہم ہوتی ہے وہ Internal control environment یعنی ساز گار ماحول ہوتا ہے اور ایک چارٹرڈ اکاوٹنٹ آڈٹ میں Risk assessment کرتے ہوئے اس سازگار ماحول کو سامنے رکھتا ہے۔ اب اگر یہی بات مذاہب میں بھی دیکھیں تو اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ان سزا جزا کے احکامات کے ساتھ سازگار ماحول کا بھی خیال رکھتا ہے اس ساز گار ماحول کی اہمیت کو پہلے ایک مثال سے سمجھتے ہیں سندھ حکومت کہتی ہے کہ کراچی میں ڈاکے نہیں ہونے چاہئیں پھر بھی وہاں یہ ختم نہیں ہو رہے اسکی وجہ یہ ہے کہ وہاں چوری نہ کرنے کا حکم اور سزا کا قانون تو ہے لیکن ساز گار ماحول نہیں ہے پس جس طرح ایک کیمیکل عمل باقی سب کچھ موجود ہونے کے باوجود صرف سازگار ماحول (Catalyst) کی غیر موجودگی کی وجہ سے نہیں ممکن نہیں ہوتا اسی طرح کراچی کا امن بھی سزا جزا کے قانون کے باوجود قائم نہیں ہو سکتاجب تک قانون کے ساتھ وہاں ساز گار ماحول نہ ہو(یعنی بے روزگاری کا خاتمہ، بڑے مگرمچھوں کو قانون کے دائرے میں لانا وغیرہ)۔ بالکل اسی طرح باقی مذاہب زنا سے خالی منع کرتے ہیں جبکہ اسلام منع کے ساتھ ساز گار ماحول بھی پیدا کرتا ہے(مثلا غیر محرم کے ساتھ بغیر وجہ اختلاط سے روکنا، پردہ اور زنا پہ حد وغیرہ)۔ اسی طرح چوری ڈاکہ سب مذاہب میں منع ہے مگر اسلام اسکے لئے سازگار ماحول فراہم بھی کرتا ہے( مثلا زکوۃ کا بہترین نظام اور چوری اور ڈاکہ زنی پہ حدود کا قیام وغیرہ)۔ پس اسلام کے تمام احکامات ایک دوسرےکو اسی طرح Reinforce کرتے ہیں جیسے عمل انگیز کیمیکل عمل کو تیز کرتا ہے
c) تجربات و مشاہدات کو دیکھا جائے تو اسلام کی دنیا میں امن قائم کرنے اورمتاثر کرنے کی گواہی تاریخ میں بھی موجود ہیں اسی میں ایک مائیکل ایچ ہارٹ کی مشہور کتاب (The 100:A ranking of the most influential persons in History) ہے جس میں سو ایسے بندے ترتیب سے ذکر کیے جنہوں نے دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں پہلے نمبر پہ محمد ﷺ (یعنی اسلام) کو رکھا مائیکل ہارٹ کہتا ہے
“My choice of Muhammad (pbuh) to lead the list of world’s most influential persons may surprise some readers & may be questioned by others, but he was the only man in the history who was supremely successful on both secular & religious level. It is probable that the relative influence of Islam has been larger than the combined influence of Jesus Christ & St. Paul on Christianity. It is this unparalleled combination of the secular and religious influence which I feel entitles Muhammad (pbuh) to be considered to be the most influential single figure in human history
مائیکل کہتا ہے ان کو پہلے نمبر پہ اس لئے رکھا کیونکہ تاریخ میں صرف یہی ہستی ایک ہستی ہیں جو مذھبی اور سیکولر (دنیاوی)دونوں لحاظ سے مکمل کامیاب رہی (یہ فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ کی کافر کی طرف سے گواہی ہے) اور عیسی اور سینٹ پال نے مل کرجتنا عیسائیوں کو متاثر کیا اسلام نے ان دونوں سے بڑھ کر متاثر کیا اور دنیاو آخرت کے اثر کا یہی بے مثال امتزاج ہی محمد ﷺ کو پوری تاریخ میں اکیلا سب سے زیادہ متاثر کرنے والا بناتا ہے
اسی طرح ہرقل والی حدیث میں بھی شاہ روم( جو عیسائی تھا) نے ابو سفیان سے وہ باتیں پوچھیں جس میں اسلام کی حقانیت کی عقلی دلیل تھی۔
پس اوپر بیان کردہ عقلی و فطری دلائل واضح کرتے ہیں کہ اسلام ہی دین فطرت ہے۔