سوال (5971)
تطمئن قلوبھم بذکر اللہ وغیرھا من الآیات سے کیا ظاہرا صرف اسم جلالہ “الله” کا ذکر اور ورد کرنا ثابت نہیں ہوتا؟ اگربغیر کسی مروجہ طریقے اور جہر وغیرہ سے احتراز کیا جائے۔
جواب
اس میں کوئی حرج نہیں ہے؟
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
سائل: حرج کیوں نہیں؟ کیا سنت سے اس کی دلیل ملتی ہے؟
جواب: پیارے بھائی آپ کو شاید یہ اشکال ہے کہ خالی اللہ کا لفظ کا ذکر کسی جگہ نہیں آیا تو یہ اشکال اس لئے غلط ہے کہ خالی اللہ کی نیت سے تو کوئی ذکر کرتا ہی نہیں، نیت میں اللہ کے ساتھ کچھ آگے پیچھے اور بھی ہوتا ہے، کیونکہ خالی اللہ کہنا تو عقل میں نہیں آتا کہ کیوں کہ رہے ہیں یا تو اللہ کے بعد اکبر محذوف سمجھیں کہ ہم دل میں اللہ کی بڑائی سوچ رہے ہوں اور وہاں ہم جب اللہ کہیں تو مطلب ہو کہ اللہ اکبر۔ جیسے عام طور پہ کوئی کوئی اچھی تلاوت کر رہا ہوتا ہے یا تقریر کر رہا ہوتا ہے تو لوگ اللہ اللہ کہتے ہیں مطلب تو نے بات بہت اچھی کی ہے مگر اللہ سب سے بڑا ہے وغیرہ، پس آگے پیچھے جب نیت میں کچھ ہوتا ہے تو ایسے ذکر کی دلیل سنت میں مل جاتی ہے خالی اللہ آگے پیچھے کچھ نیت میں سوچے بغیر تو کوئی عقل والا نہیں کہتا ہو گا. واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
سائل: سائل نے “صرف” اسم جلالہ کے “ورد” ہی کے بارے پوچھا ہے۔ ممکن ہے اس کی مراد وہی ہو جو آپ نے بتائی لیکن مجھے ایسا نہیں لگا۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ




