سوال (4294)
آج کل جو بائیکاٹ کی مہم اسرائیلی مصنوعات کی چلائی جا رہی ہے، اس میں بعض لوگ کہتے ہیں حاکم وقت اعلان کرے تو بائیکاٹ کرنا چاہیے، ایک معتبر عالم دین کا کلپ دیکھا وہ بھی فرما رہے تھے کہ حکمرانوں کو اعلان کرنا چاہیے کہ فلاں فلاں مصنوعات اسرائیل کی ہیں کنفرم بائیکاٹ کریں تب عوام کو کرنا چاہیے، صحیح موقف کیا ہونا چاہیے؟
جواب
اصل میں یہ کہنا کہ حکمران بائیکاٹ کا اعلان کریں، تب ہم بھی کریں گے، یہ پرانا حربہ ہے، جس طرح ہم کہتے ہیں کہ نماز پڑھنی چاہیے، اور ہم تیس چالیس سال سے یہ سنتے آ رہے ہیں کہ حکمرانوں کو چاہیے کہ اذان کے وقت مارکیٹیں بند کر دیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ جب دین کو اپنے مفادات میں استعمال کرنے کی باری آئے تو اس وقت ہمیں حکمران یاد نہیں آتے ہیں، بلکہ اس وقت ہم حکمرانوں کو بائے پاس کرتے ہیں، ایمانداری سے یہ بتائیں کہ سڑک پر چلتے ہوئے کتنے لوگ ہیں جو قوانین کی پاسداری کرتے ہیں، بلکہ ہمارے ہاں یہ ہے کہ قانون بنتا ہی اس لیے ہے کہ ہمیں پتا چل جائے کہ کتنے فیصد لوگ بے وقوف ہیں، جو اس قانون کی پاسداری کرتے ہیں، باقی اسرائیلی مصنوعات ہم سے ہر کسی کے گھر میں آ رہے ہیں، یہ انفرادی معاملہ ہے، انفرادی اجتماعیت کی اکائی ہوتی ہے، اس لیے ہر فرد کو یہ ذمے داری احسن طریقے سے نبھانے چاہیے کہ ان کی اشیاء کا بائیکاٹ کریں، بائیکاٹ ہم کریں گے، حکمران اعلان کر بھی دیں، تب بھی نہیں ہوگا، جیسا کہ حکومت کی طرف سے شراب پر پابندی ہے، کیا لوگ عمل کر رہے ہیں، بس انفرادی ہر شخص کی ذمے داری ہے کہ ان خبیث یہودیوں کی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ