سوال (2710)
ایک آدمی نے اسٹام فروش سے طلاق لکھوائی ہے، اس نے طلاق کے تین پیپر نکالے اور طلاق دینے والے سے دستخط کروائے اور طلاق دینے والے نے اسے کہا ہر مہینے ایک ایک پیپر یونین کونسل کے ذریعے بھیج دینا تو یہ کتنی طلاقیں شمار ہوں گی۔
جواب
اس صورت میں پہلی تحریر پر ایک ہی طلاق شمار کی جائے گی، اگر دوسرے مہینے عورت کو بھیج دیا جائے تو دوسری طلاق شمار ہوگی، اگر تیسرے مہینے عورت کو تیسرا پیپر بھیج دیا جائے تو تیسری طلاق شمار ہوگی، ابھی فلحال ایک ہی طلاق ہو گی، کیونکہ طلاق شدہ کو طلاق نہیں دی جاتی ہے، وہ عدت میں داخل ہوجاتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل:
کیا پہلی طلاق کی عدت میں دی گئی دوسری طلاق واقع ہوتی ہے؟
جواب:
عمومی طور پہ اہل حدیث امام ابن تیمیہ کا موقف سامنے رکھتے ہیں، ان کا موقف ہے کہ بغیر رجوع کے دوسری طلاق نہیں ہے، ابن القیم کے مباحث میں بھی یہی چیز ہے، ہمارے ہاں علماء کا جو رائج فتوی ہے وہ یہ ہے کہ ایک وقفہ جو مہینے کا ہوتا ہے، تو پھر دوسری کو شمار کرتے ہیں، لہذا اس صورت میں دوسری طلاق واقع ہو جائے گی۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
“ایک طلاق کے بعد رجوع کئے بغیردوبارہ طلاق دینا”
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کی طلاق مسنون کی شرط ہے کہ دوران عدت دوسری طلاق نا دے، امام ابوحنیفہ کہتےہیں کہ اگر ہر طہر میں ایک طلاق دے تو یہ طلاق مسنون ہو گی، دراصل اختلاف اس وجہ سے ہے کہ کیا طلاق سنت کی شرائط میں یہ شرط بھی داخل ہے کہ وہ رجوع کے بعد حالت زوجیت میں طلاق ہو یا یہ شرط نہیں ہے؟ جن فقہاء کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے وہ دوران عدت طلاق دینے کو حرج نہیں سمجھتے اور جن فقہاء کے نزدیک یہ شرط ہے وہ کہتے ہیں کہ دوران عدت طلاق دینا طلاق مسنون نہیں ہے۔
البتہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر وہ طلاق دے دےتو واقع ہو جائے گی۔
[بدایة المجتھد:کتاب الطلاق]
ارشاد باری تعالٰی ہے۔
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ …..
یہ طلاق (رجعی) دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔۔۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ طلاق رجعی یعنی وہ طلاق جس کے بعد آدمی رجوع کر سکتا ہے وہ دو بار ہےمطلب کہ اگر پہلی طلاق دی ہے تو اس کے بعد (دوران عدت)رجوع کا حق حاصل ہےلیکن اگر اس دوران بھی طلاق ہی دینی ہے توپھر طلاق رجعی کا کیا مطلب ہوا۔۔۔اب یہاں چند باتیں غور طلب ہیں۔
(1) : یہاں سے معلوم ہورہا ہےکہ عدت کا مقاصد میں سے ایک مقصد بلکہ مقصدِ عدت ہی یہ ہے کہ خاوند بیوی رجوع کر لیں اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ازواج میں سے کسی کو طلاق دی اور دوران عدت ہی رجوع کر لیا۔
[ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَهَا ] [ أبو داوٗد، الطلاق، باب في المراجعۃ : ۲۲۸۳، وقال الألباني صحیح ]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ( رضی اللہ عنھا ) کو طلاق دے دی، پھر ان سے رجوع کر لیا۔‘‘
ورنہ اللہ تعالی یہ بھی کہ سکتے تھے کہ طلاق کے بعد رجوع کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ دوبارہ نکاح ہو گا یا اس کے اور کوئی متبادل صورت لیکن اللہ تعالی نے الطلاق مرتان کا لفظ بول کر دو بار اسے یہ حق دیا ہے کہ وہ عورت سے دوسری بار طلاق دینے کے بعد بھی رجوع کر سکتا ہے مقصد یہ مزید لڑائی اور جھگڑے کی طرف نا جائیں اور اگر اس کے بعد بھی عدت کے اندر طلاق دینی ہے تو پھر یہ مقصد ہی فوت ہو گیا اور رائیگاں چلا گیا۔
(2) : دوسری بات اس آیت کے اگلے حصے میں موجود ہے
فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ …..
مطلب کہ طلاق کے بعد یا تو اچھے طریقے سے رکھو مطلب کہ عدت کے اندر اندر رجوع کر لو یا پھر اچھے طریقے سے چھوڑ دو اچھے طریقے سے چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ عدت پوری کرے اور گھر چلی جائے اور دوران عدت طلاق دینا ان میں سے کسی زمرے میں بھی نہیں آتا نا ہی وہ وہ امساک بالمعروف ہے اور ناہی تسریح باحسان ہے تو گویا عدت کے اندر دوسری طلاق دینا اس آیت کی واضح خلاف ورزی ہے۔
(3) : تیسری بات یہ کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا.
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں) لائیں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔
اس آیت میں وضاحت یہ کہ اپنی بیویوں کو طلاق دینے کے بعد ان کو گھر سے نہیں نکالنا بلکہ ان کو گھر میں ہی رکھنا ہے مگر یہ کہ وہ کوئی واضح بے حیائی ارتکاب کریں اور پھر فرمایا کہ یہ اللہ کی حدود ہیں معلوم ہوا کہ گھر سے نہیں نکالنا مگر کیوں نہیں نکالنا؟ اس کی بھی کوئی وجہ ہو گی یقینا ۔۔۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی ایک گھر میں ہی رہیں گے تاکہ کسی بھی پہلو پر وہ رجوع کر سکیں کسی فرد کو دوسرے کی کوئی بات بھلی لگے تو وہ اس سے اس بات پر خوش ہو کر ناراضی کو ختم کر دے اور رجوع کر لے لیکن اگر وہ عدت میں بھی طلاق ہی دے گا تو بیوی کو عدت میں گھر رکھنے کا یہ مقصد فوت ہو جائیگا۔
(4) : ایک اورقباحت یہ بھی ہے کہ اگر خاوند بیوی کو دوران عدت طلاق دےد یتا ہے جبکہ وہ ابھی پچھلی طلاق کی عدت گزار رہی ہے تو اس طرح عورت کو زیادہ عرصہ عدت گزارنا پڑے گی اور وہ تنگی محسوس کرے گی اور یہ بھی امساک بالمعروف اور تسریح باحسان کے مخالف ہے اگر خاوند بیوی کو رکھنا ہی نہیں چاہتا وہ عدت کے بعد گھر جاسکتی ہے رجوع نا کرے لیکن اس کو پھر طلاق پر طلاق دینالغو ہےجیسے ملاعَنہ کو طلاق دینا لغو ہے۔
ناقل : فضیلۃ الباحث سید عبداللہ حسن حفظہ اللہ