استقامت

استقامت سے مراد یہ ہے کہ بندہ جب اللہ تعالی کی توحید، نبی کریم ﷺ کی رسالت اور اسلام کو اپنا دین تسلیم کر لے تو پھر پوری دلجمعی اور دھیان سے اسی کی طرف متوجہ رہے، زندگی بھر اپنے اس قول و قرار کو پوری دیانتداری اور راست بازی سے نبھائے۔ اللہ تعالی کی ربوبیت والوہیت میں کسی کو شریک نہ کرے اور نہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلے۔ جو کچھ زبان سے کہے اس کے تقاضوں کو اعتقاداً اور عملاً پورا کرے، جو عمل کرے خالص اللہ کی خوشنودی اور شکرگزاری کے لیے کرے، اپنے رب کے مقرر کردہ حقوق و فرائض کو سمجھ کر ادا کرے، اسے اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی پروا نہ ہو، دنیا پرست لوگوں کا دھیان رکھتے اور انہیں دیکھتے ہوئے اس کی دینداری میں کوئی لچک پیدا نہ ہو، دنیاوی مناصب و عہدے اور حصولِ معاش کے مراحل اسے اپنے عقیدے سے متزلزل نہ کر سکیں۔
⇚ علامہ راغب اصفہانی رحمہ اللہ (٥٠٢هـ) لکھتے ہیں:

اِسْتِقَامَةُ الْإِنْسَانِ : لَزُوْمُهُ الْمَنْهَجَ الْمُسْتَقِیمَ.

’’انسان کی استقامت یعنی اس کا سیدھے منہج کے ساتھ پوری طرح چمٹ جانا۔‘‘ (مفردات القرآن :١/ ٦٩٢)
⇚ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢هـ) فرماتے ہیں :

أيِ اسْلُكُوا طَرِيقَ الِاسْتِقامَةِ وهِيَ كِنايَةٌ عَنِ التَّمَسُّكِ بِأمْرِ اللَّهِ تَعالى فِعْلًا وتَرْكًا.

’’یعنی استقامت کا راستہ اختیار کرو، اس میں اللہ تعالی کے احکامات کو باعتبارِ فعل و ترک بجا لانے کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ (فتح الباری : ١٣/ ٢٥٧)
⇚ حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦هـ) فرماتے ہیں :

قالَ العلماءُ: مَعنى الاِسْتِقامَةِ لُزُومُ طاعَةِ اللهِ تَعالى.

’’علماء کا کہنا ہے کہ استقامت کا معنی اللہ تعالی کی اطاعت سے چمٹے رہنا ہے۔‘‘ (ریاض الصالحين، ص : ٤٨)
⇚ علامہ ناصر الدین بیضاوی رحمہ اللہ (٦٨٥هـ) فرماتے ہیں :

الِاسْتِقامَةُ اتِّباعُ الحَقِّ والقِيامُ بِالعَدْلِ ومُلازَمَةُ المَنهَجِ المُسْتَقِيمِ مِنَ الإتْيانِ بِجَمِيعِ المَأْمُوراتِ والِانْتِهاءِ عَنْ جَمِيعِ المَناهِي وذَلِكَ خَطْبٌ عَظِيمٌ لا يُطِيقُهُ إلّا مَنِ اسْتَضاءَ قَلْبُهُ بِالأنْوارِ القُدْسِيَّةِ وتَخَلَّصَ عَنِ الظُّلُماتِ الإنْسِيَّةِ وأيَّدَهُ اللَّهُ تَعالى مِن عِنْدِهِ وقَلِيلٌ ما هُمْ.

’’اتباعِ حق، قیام بالعدل، تمام اوامر کو بجا لانے اور نواہی سے اجتناب میں منہجِ مستقیم کی پختگی کا نام استقامت ہے اور یہ بڑا عظیم معاملہ ہے اس کی استطاعت صرف وہی رکھتا ہے جس کا دل نورِ قدسیہ کے انوار سے روشن ہو، انسانی اندھیروں سے خلاصی پا چکا ہو اور اسے اللہ تعالی کی طرف سے مدد حاصل ہو، لیکن یہ لوگ بڑی ہی قلیل تعداد میں ہیں۔‘‘ (تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة : ١/ ١٧١)
✿ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی جگہ استقامت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، فرمایا :

﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ﴾.

’’آپ ان سے کہئے کہ : میں تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا الٰہ بس ایک ہی الٰہ ہے۔ لہٰذا سیدھے اسی کی طرف متوجہ رہو اور اسی سے معافی مانگو۔‘‘ (سورہ فصلت : ٦)
⇚ شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ (١٣٧٦هـ) فرماتے ہیں :
اسلكوا الصراط الموصل إلى الله تعالى،

بتصديق الخبر الذي أخبر به، واتباع الأمر، واجتناب النهي، هذه حقيقة الاستقامة، ثم الدوام على ذلك.

”یعنی میں جن امور کے بارے میں تمہیں خبر دے رہا ہوں ان کی تصدیق، اوامر کی اتباع اور نواہی سے اجتناب کر کے، اس راستے پر گامزن ہوجاؤ جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ یہ حقیقتِ استقامت ہے اور پھر اس پر قائم رہو۔‘‘ (تيسير الكريم الرحمن، ص : ٧٤٤)
✿ نیز نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا :

﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا﴾.

’’آپ پوری طرح ثابت قدمی سے جمے رہیے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے، اور آپ کے وہ ساتھی بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ (ایمان کی طرف) رجوع کیا ہے۔‘‘ (ھود : ١١٢)
✿ سیدنا موسی اور ہارون علیہما السلام کو بھی یہی حکم ملا :

﴿قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾.

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ دونوں کی دعا قبول ہوچکی آپ ثابت قدم رہیں اور ان لوگوں کی پیروی نہ کریں جو علم نہیں رکھتے۔‘‘ (سورہ یونس : ٨٩)
⇚ مفسر قرآن، شیخ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ (١٤١٥هـ) فرماتے ہیں :
’’پیغمبروں کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اور مسلمانوں کی جماعت کو صبر، استقلال اور ثابت قدمی کی تلقین فرمائی اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو لوگ زندگی کی کامیابی کا منتہائے مقصود صرف دنیا کے مال و دولت اور شان و شوکت ہی کو سمجھ بیٹھے ہیں ان کی طرف مطلقاً التفات نہ کرو کیونکہ ان کا یہ نظریہ محض جہالت پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ جلد ہی تمہیں ان لوگوں سے نجات دے دے گا۔‘‘ (تیسیر القرآن)
✿ اسی طرح فرمایا:

﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾.

’’بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ غمگین ہونگے۔‘‘ (الأحقاف : ١٣)
⇚شیخ عبد السلام بھٹوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
ثُمَّ اسْتَقَامُوْا: اس میں سین اور تاء مبالغے کے لیے ہے، یعنی پھر اس پر خوب قائم رہے اور موت تک ڈٹے رہے، کوئی خوف یا لالچ انھیں اس عقیدے اور عمل سے نہ پھیر سکا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ [الحجر : ۹۹ ] ’’اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین آ جائے۔‘‘ (تفسیر القرآن الکریم)
✿ نیز فرمایا:

﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ﴾.

’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں۔ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘ (فصلت : ٣٠)
⇚سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ

«اسْتَقامُوا لِلَّهِ بِطاعَتِهِ، ولَمْ يَرُوغُوا رَوَغانَ الثَّعْلَبِ».

’’وہ اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے ثابت قدم ہو گئے اور لومڑ کی طرح چال بازیاں نہیں کرتے۔‘‘ (تفسیر طبری : ٢٠/ ٤٢٥ ورجاله ثقات)
⇚ شیخ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یعنی جن لوگوں نے دل و جان سے توحید باری تعالیٰ کا اقرار کیا۔ پھر تازیست اپنے اس قول و قرار کو پوری دیانتداری اور راست بازی سے نبھایا۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت والوہیت میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ نہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہے جو کچھ زبان سے کہا تھا اس کے تقاضوں کو اعتقاداً اور عملاً پورا کیا۔ جو عمل کیا خالص اس کی خوشنودی اور شکرگزاری کے لیے کیا۔ اپنے رب کے مقرر کردہ حقوق و فرائض کو سمجھا اور ادا کیا۔ ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے جنت کی خوشخبری دینے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔‘‘ (تیسیر القرآن)
جاری ہے ۔۔۔۔
⇚ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (٧٥١هـ) فرماتے ہیں :
’’استقامت ایک جامع کلمہ ہے کہ جو مجموعی دین پر مشتمل ہے، یہ اللہ تعالی کے سامنے حقیقتِ صدق اور وفائے عہد کے ساتھ کھڑے ہونے کا نام ہے، استقامت کا اقوال وافعال، احوال ونیات سب سے تعلق ہے ۔‘‘ (مدارج السالكين : ٢/ ١٠٦)
✿ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا﴾.

’’اور اگر لوگ سیدھی راہ پر ثابت قدمی سے قائم رہتے تو ہم انہیں باافراط پانی سے سیراب کرتے۔‘‘ (الجن : ١٦)
اس آیت میں کثرتِ پانی سے دنیاوی نعمتیں اور مال و دولت مراد لیا ہے، یعنی اگر لوگ راہِ حق پر، ایمان و اسلام پر استقامت اختیار کریں گے تو اللہ تعالی ان کے لیے رزق کے طرق کشادہ کر دیں گے اور دنیا کی خیر وبرکات سے مالا مال کر دیں گے ۔
⇚امام مجاہد تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’وافر پانی سے سیراب کریں گے یعنی ہم انہیں مالِ کثیر سے نوازیں گے۔‘‘ (تفسیر طبری : ٢٣/ ٣٣٦، وسندہ مقبول)
⇚نیز ان سے مروی ہے :
’’یعنی اگر وہ اسلام کی راہ پر پختگی سے ڈٹے رہیں گے تو ہم انہیں کثیر منافع اور کثرتِ دولت عطا کریں گے۔‘‘ (تفسیر طبری : ٢٣/ ٣٣٥)
✿۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی احادیث میں استقامت کا بار بار حکم دیا ہے جیسا کہ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

«اِسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا ، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةُ، وَلَا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ».

’’استقامت اختیار کریں اور درحقیقت آپ (کما حقہ) اسے اختیار نہیں کر سکیں گے، اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا بہترین عمل نماز ہے اور وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے۔‘‘
(حسن، سنن ابن ماجہ : ٢٧٧)
⇚ ایک روایت کے الفاظ ہیں :

اِسْتَقِيمُوا تُفْلِحُوا.

’’استقامت اختیار کریں، فلاح پا جائیں گے۔‘‘ (مسند احمد : ٣٧/ ٩٥ وسندہ صحیح)
⇚ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٤٦٣هـ) فرماتے ہیں :
’’آپ ﷺ کے فرمان (اسْتَقِيمُوا) کا مطلب ہے کہ تمہارے لیے جو دین بیان کر دیا گیا ہے اور جو فرائض عائد کر دیے گئے ہیں ان سے بالکل بھی نہ ہٹو اور نہ کج روی اختیار کرو، یقیناً تمہیں بالکل واضح راستے پر چھوڑا گیا ہے جس کی راتیں بھی اس کے دنوں کی طرح روشن ہیں، کتنا ہی اچھا ہوتا کہ تمہارے پاس اس کی پوری استطاعت ہوتی۔‘‘ (التمهيد : ٣٤/ ٣١٨)
✿ سیدنا سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام میں کوئی ایسی بات بتا دیں کہ پھر آپ کے بعد کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے تو آپ ﷺ نے فرمایا :

قُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ فَاسْتَقِمْ.

’’کہو! میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم : ٣٨)
⇚ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ، اسْتَقِيمُوا فَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِيدًا، فَإِنْ أَخَذْتُمْ يَمِينًا وَشِمَالًا، لَقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا.

’’اے قراء کی جماعت! استقامت و ثابت قدمی اختیار کرو، تم بعد والوں سے بہت آگے بڑھ چکے ہو اور اگر تم نے دائیں یا بائیں راستہ اختیار کیا تو تم دور کی گمراہی میں جا پڑو گے۔‘‘ (صحیح بخاری : ٧٢٨٣)
⇚ علامہ شمس الدین کرمانی رحمہ اللہ (٧٨٦هـ) اس اثر کی تشریح میں فرماتے ہیں :
’’صراط مستقیم یعنی قرآن وسنت پر ثابت قدم رہو اور اسے مستقل مزاجی سے اختیار کرو۔‘‘ (اللامع الصبيح : ١٧/ ٢٢٤)
⇚علامہ ابو القاسم القشیری (٤٦٥هـ) فرماتے ہیں :
’’استقامت وہ درجہ ہے کہ جس پر امور کا اتمام و کمال ہے، اس کا وجود خیرات کے حصول و نظم کا سبب ہے اور جو حالتِ استقامت پر نہ ہو اس کی کوشش ضائع اور محنت رائیگاں ہے۔‘‘ (الرسالة القشيرية : ٢/ ٣٥٦)
⇚⇚استقامت ، کرامت سے بہتر ہے :
⇚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨هـ) فرماتے ہیں :
’’سب سے بڑی کرامت تو لزومِ استقامت ہے۔‘‘ (مدارج السالكين لابن القيم : ٢/ ١٠٦)
⇚ علامہ ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ (١٠١٤هـ) فرماتے ہیں :
’’استقامت ہزاروں کرامات سے بہتر ہے اور یہ صحیح عقیدے پر ثابت قدمی اور علم نافع و عمل صالح پر مداومت و ہمیشگی کا نام ہے۔‘‘ (مرقاة المفاتيح : ١/ ٣٣٦)
⇚اسی طرح سید الطائفہ، امام جنید بغدادی رحمہ اللہ سے منقول ہے:
’’استقامت کا ایک ذرہ ہزار کرامتوں سے بہتر ہے۔‘‘ (الفتاوى الحديثية للهيتمي، ص : ٢٠٧)
یعنی دین پر ثابت قدم رہنا، عقیدہ و ایمان میں کسی قسم کی مداہنت کا شکار نہ ہونا اور اعمال کو بجا لانے میں اپنے رب کی اطاعت کرنا یہ ایسی کرامت ہے کہ ظاہری معجزاتی کرامات کا اس سے کوئی مقابلہ نہیں، لہذا جو انسان استقامت اختیار کر لیتا ہے اسے کرامتوں کی حاجت نہیں رہتی وہ ان ظاہری سے بے نیاز ہو جاتا ہے، جیسا کہ ابو علی جوزجانی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے:
’’صاحبِ استقامت بنو، نہ کہ طالبِ کرامت، تمہارا پروردگار تم سے استقامت کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ تمہارا نفس کرامت کے حصول میں جُتا ہوا ہے۔‘‘ (الرسالة القشيرية : ٢/ ٣٥٧)
⇚⇚استقامت ایک مشقت طلب کام ہے اور اس کے لیے بڑے حوصلے، صبر اور ہمت کی ضرورت ہے :
✿۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول! آپ تو عمر رسیدہ ہو چلے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا :

«شَيَّبَتْنِي هُودٌ وأخَواتُها».

’’مجھے سورہ ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی : ١٧/ ٢٨٦ وسنده حسن، وفى الباب عن عمران بن الحصين عند الخطيب ٤/ ٢٤٢ وسنده صحیح، وانظر : سنن الترمذى : ٣٢٩٧)
⇚سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ ﴿فاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ﴾ کے متعلق مروی ہے :
’’رسول اللہ ﷺ پر اس آیت سے زیادہ شدید اور پُر مشقت آیت کوئی نازل نہیں ہوئی، اسی لیے جب کسی صحابی نے عرض کی کہ آپ پر عمر رسیدگی کے اثرات جلد آ گئے ہیں تو آپ نے فرمایا : مجھے سورہ ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے۔‘‘ (شرح النووي على صحیح مسلم : ٢/ ٩)
⇚ابو علی محمد بن عمر الشبوی، ابن شبّویہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
’’میں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو پوچھا : اے اللہ کے رسول! آپ سے حدیث بیان کی جاتی ہے کہ آپ نے فرمایا : مجھے سورہ هود نے بوڑھا کر دیا ۔ تو آپ نے فرمایا : جی ہاں! ۔ میں نے پوچھا : اس سورت میں کس چیز نے آپ کو بوڑھا کیا؟ انبیاء کے واقعات نے یا قوموں کی ہلاکت نے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : نہیں، بلکہ اللہ تعالی کے اِس فرمان نے : آپ ثابت قدم رہیں جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے۔‘‘ (شعب الإيمان للبیہقی : ٤/ ٨٢، الرسالة القشيرية : ٢/ ٣٥٧)
⇚علامہ ابن مالک کرمانی رحمہ اللہ (٨٥٤هـ) فرماتے ہیں :
’’یقیناً صراط مستقیم پر ثابت قدمی اعتقادات اور ظاہری و باطنی اعمال میں بنا کسی افراط و تفریط یکسوئی نہایت کٹھن و مشکل کام ہے ۔‘‘ (شرح المصابيح : ٥/ ٤٦١، ونسب إلى الغزالي ولم أعثر عليه)
⇚یزید بن ابان الرقاشی بیان کرتے ہیں :
’’میں نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا تو آپ کو سورہ ہود پڑھ کر سنائی، جب میں نے سورت مکمل کء تو آپ نے فرمایا : اے یزید! آپ نے سورت پڑھ لی؟ تو آپ کا رونا کہاں ہے؟ (یعنی آپ کو اس سورت کی تلاوت پر بھی رونا نہیں آیا۔)‘‘ (تفسیر الثعلبی : ١٤/ ٣١١، المتفق والمفترق للخطيب : ٣/ ١٦٦٥ وفى سنده محمد بن يونس بن موسى وهو متروك.)
⇚آخر میں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ استقامت کے متعلق مجاہد ملت، علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ (١٤٠٧هـ) کے خطاب کا ایک اقتباس ذکر کر دیا جائے وہ فرماتے ہیں :
یاد رکھئے گا؛ ساری گفتگوئیں، ساری تبلیغیں، سارے جمعے کے خطبات، سارے جلسے، سارے درس، ساری تقریریں، ان کا ماحاصل یہ ہے کہ انسان ایمان کی راہ کو اختیار کر کے استقامت کو اختیار کرے اور استقامت نام ہے ماسوا اللہ سے بے نیاز ہو جانے کا۔ ماسوا اللہ کے اندر محلے دار بھی ہیں، ساہو کار بھی ہیں، تھانیدار بھی ہیں، اقتدار والے بھی ہیں اختیار والے بھی ہیں، دین والے بھی ہیں، دنیا والے بھی ہیں، پیر بھی ہیں، فقیر بھی ہیں، کاروبار بھی ہیں، دولت و مال بھی ہے۔ ان ساری چیزوں سے بے نیاز ہو کے بندہ ایک اللہ کو اپنا رب بنا لے اس کو استقامت کہتے ہیں۔
استقامت کا معنی کیا ہے؟ کاروبار چل رہا ہے فیکٹری چل رہی ہے کھیت گاہے جا رہے ہیں غیر اللہ آتا ہے اور غیر اللہ صرف قبروں والے نہیں ہیں۔ ہر وہ چیز جو انسان کو ڈرانے والی یا انسان کو لالچ دینے والی ہو وہ غیر اللہ ہے۔ خیال آتا ہے فیکٹری چھوٹی ہے ایک مشین اور لگ جائے آمدن چار گنا ہو جائے گی۔ آج ایک ہزار روپیہ مہینہ آمدن ہے۔ اگر لاکھ روپے کی ایک اور مشین لگ جائے تو دس ہزار روپیہ مہینہ آمدن ہو جائے گی۔ بڑی سے بڑی چیز اور چھوٹی سے چھوٹی چیز اسی مثال پر قیاس کر لو۔ انسان اپنی زمین کی کاشت کر رہا ہے سوچتا ہے اگر ایک بڑا ٹریکٹر اور آجائے تو زمین کی آمدن میں اضافہ ہو جائے گا۔ انسان کرائے کے مکان میں رہتا ہے سوچتا ہے اگر دو لاکھ روپیہ اور ہو جائے تو مکان اپنا ہو جائے گا۔ انسان دوکان کرتا ہے۔ دس لاکھ روپے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے سوچتا ہے اگر بیس لاکھ روپیہ اور مل جائے تو کاروبار دس گنا ہو جائے گا۔ انسان بائیسکل موٹر سائیکل رکھے ہوئے ہے سوچتا ہے اگر گاڑی آجائے گی تو عزت میں اضافہ ہو جائے گا۔ وسائل اپنے پاس نہیں ہیں سوچتا ہے اگر بینک سے قرضہ لے لوں اگر کسی سے سود پر ٹریکٹر لے لوں اگر کسی سے سود کی بنیاد پر مارک اپ کروا لوں اور مشین منگوا لوں دس فیصدی دینا پڑے گا پچاس فیصدی کما لوں گا۔ لالچ آگیا اللہ کو چھوڑ کر شیطان کے راستے پر چل کر لالچ میں حلال کو حرام میں تبدیل کر لیا۔ اس آدمی نے استقامت کی راہ کو اختیار نہیں کیا ہے۔ کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ محنت کر کے کماتا ہے۔ مشکل سے اپنی اولاد کا پیٹ بھرتا ہے۔ پڑھا لکھا ہے یا کاروباری ہے۔ جانتا ہے لاکھ روپیہ ہو جائے میرے حالات سدھر جائیں گے لیکن لاکھ روپیہ پاس موجود نہیں۔ بچے بڑی مشکل سے گزارا کرتے ہیں آفر ہوتی ہے آؤ ہم سے لاکھ روپیہ سود کا لے لو۔ استقامت کس کو کہتے ہیں ؟

﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا﴾

اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے پاؤں کی نوک آگے کر دیتا ہے۔ کہتا ہے میں اللہ کے سوا کسی کو نفع نقصان دینے والا نہیں سمجھتا ہوں۔ شرک ہے۔ (خطبات علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ : ٤٣٠ – ٤٣١)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں طریقِ استقامت کے راہی بنائے، کج روی اور زیغ وضلال سے ہمارے دلوں کو محفوظ فرمائے ۔ آمین ۔

حافظ محمد طاھر