ہماری ’سہولت کاری’ کی بنیاد کیا ہے؟
اہل بدعت و انحراف کی گمراہیاں یا اہل حق سے بھی جہاں جہاں غلطیاں اور لغزشیں ہوئی ہیں، انہیں بیان کرنا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس میں ہمیں کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔
قرآن کی من مانی تشریحات ہوں یا حدیث و سنت کے انکار و استخفاف کا معاملہ یا عظمت و دفاع صحابہ اور امامت و سیاست جیسے اہم مسائل، ان سب میں الحمد للہ، اہل علم نے بہترین دلائل کے ساتھ حق کا بیان اور باطل کا رد کیا ہے۔
لیکن اختلاف کے باوجود اہل علم نے تعامل میں نرمی اور رویے میں رواداری رکھی ہے، جسے بعض دوستوں کی طرف سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور اس بارے میں نہ صرف یہ کہ اہل علم کی بات خاطر میں نہیں لائی جاتی، بلکہ اگر ہم ان کے اقوال اور تعامل کو نقل کریں، تو تنگ نظر دوست اس پر ’سہولت کاری’ کا ٹھپہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں!
حضرت مولانا اسماعیل سلفی مرحوم نے مولانا مودودی پر بہترین تنقید کی ہے، سب لوگ اسے بڑا خوشی خوشی نقل کرتے ہیں، لیکن یہی اسماعیل سلفی رحمہ اللہ جب یہ کہتے ہیں کہ اس سب کے باوجود میں مولانا مودودی کا احترام کرتا ہوں… تو یہ منہجی دوستوں کو ہضم نہیں ہوتا اور اس پر ہمیں سہولت کاری کے طعنے دیتے ہیں!
مولانا سلفی مرحوم مولانا مودودی مرحوم کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جہاں تک… مولانا مودودی کی ذات کا تعلّق ہے یا ان کی اصلاحی مساعی کا، میرے دل میں ان کے لیے پورا احترام ہے۔ گزشتہ ایام میں بعض اخباری انداز تحریر سے فضا میں جو تمازت پیدا ہوگئی تھی میں طبعاً اسے ناپسند کرتا ہوں۔ دین پسند جماعتوں کے تخاطب میں یہ ترشی کبھی نہیں آنی چاہیئے اور موجودہ ظروف واحوال تواس کے لیے قطعاً ناسازگار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دین پسند جماعتیں جس قدر بھی باہم دست وگریباں ہوں گی باطل کو اسی قدر فائدہ پہنچےگا’’۔ [حجیت حدیث: 94]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیفات میں جابجا مولانا مودودی کا تعاقب کیا ہے، لیکن انہیں علامہ البانی کی تصنیفات میں مولانا مودودی کی تعریف و توصیف دسیوں مقامات پر موجود ہے!
برصغیر میں مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ، حافظ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ اور عالم عرب میں ابن باز، بکر ابوزید، صالح الفوزان وغیرہ بے شمار علمائے کرام ہیں، انہوں نے اپنی تصنیفات میں مولانا مودودی سے جابجا استفادہ کیا ہے اور ان کی کتابوں کا نام لیکر ان کے حوالہ جات نقل کیے ہیں!
بطور مثال چند اقتباسات نقل کر دیتا ہوں:
شیخ البانی رحمہ اللہ:
«وقد ألفت كتب كثيرة في الرد على هؤلاء الضلال، ومن أحسنها رسالة الأستاذ الفاضل المجاهد أبي الأعلى المودودى رحمه الله في الرد عليها، وكتابه الآخر الذي صدر أخيرا بعنوان ” البيانات ” فقد بين فيهما حقيقة القاديانيين، وأنهم مرقوا من دين المسلمين بأدلة لا تقبل الشك، فليرجع إليهما من شاء». “الضعيفة” للألباني (1/ 175 – 176).
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ:
«لأبي الأعلى المودودي – رحمه الله تعالى – كلام نافع، في أن تغريب المصطلحات أوجد انفصاماً بين المسلمين…». [معجم المناهي اللفظية ص253]
« أبو الأعلى: استنكر الشيخ حمد الجاسر على الشيخ: ((أبي الأعلى المودودي)) تكنيه بذلك محتجاً بقول الله – تعالى -: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} .
وهذا من باب التوقي؛ لأن للمخلوق علواً يناسبه، والخلق في ذلك متفاوتون. ولا يظهر لي المنع.». [معجم المناهي اللفظية ص575]
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ:
«قال الشيخ أبو الأعلى المودودي في (رده على القاديانية) : “ونحن إذا تتبعناه [أي: القرآن] بغية أن نعرف الأسباب التي لأجلها ظهرت الحاجة إلى إرسال نبي في أمة من أمم الأرض؛ علمنا أن هذه الأسباب أربعة…». [الإرشاد إلى صحيح الاعتقاد والرد على أهل الشرك والإلحاد ص214]
جامعہ اسلامیہ کے سینئر ترین استاذ غالب العواجی رحمہ اللہ:
«أنني قدمت أثناء الكتابة عن القاديانية ما ترجمه المشائخ: أبو الأعلى المودودي، والشيخ الندوي، والشيخ إحسان إلهي، على ما ترجمه غيرهم؛ للثقة القوية بغزارة علم هؤلاء، وإحاطتهم بمفاهيم القاديانية كلها، وعظيم شرفهم في الخلق والدين، فالاعتماد على ترجمة هؤلاء أولى من غيرهم في نظري، خصوصاً لمن لم يعرف اللغة الأردية.». [فرق معاصرة للعواجي 2/ 853]
کیا ان بزرگوں کو بھی سہولت کار کہا جائے گا؟
آخر میں شیخ البانی کے ساتھ ایک منہجی سائل کا مکالمہ ذکر کرنا مفید رہے گا، ایک صاحب شیخ البانی کے پاس آئے اور کہنے لگے، اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے جو مودودی کی فلاں فلاں غلطیوں کی تعریف کرتا ہے؟
شیخ نے پوچھا: غلطیوں کی تعریف کرتا ہے یا مودودی کی تعریف کرتا ہے، سائل کہنے لگا: نہیں مودودی کی تعریف کرتا ہے.. شیخ کا جواب سنیں:
«فإذا مدح صاحب الكلام قد أمدحه أنا فهل معنى ذلك أنني أُصَوِّب كل ما قال.». [جامع تراث العلامة الألباني في المنهج والأحداث الكبرى 6/ 317]
یعنی غلطی کی تائید الگ بات ہے، جبکہ شخصیت کی تعریف الگ مسئلہ ہے، کیونکہ مودودی کی تعریف تو میں بھي کرتا ہوں، تو کیا اس کا مطلب میں اس کی غلطیوں کی تائید کرتا ہوں؟
پھر شیخ رحمہ اللہ نے اس سائل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
«شوف يا أخي نحن ننصحك والشباب الآخرين الذين يقفون في خط منحرف فيما يبدو لنا والله اعلم أن ما تضيعوا أوقاتكم في نقد بعضكم بعضا وتقولوا كذا، وفلان قال كذا لأنه أولاً هذا ليس من العلم في شيء، وثانياً: هذا الأسلوب يوغر الصدور ويحقق الأحقاد والبغضاء في القلوب، إنما عليكم بالعلم، فالعلم هو الذي سيكشف هل هذا الكلام في مدح زيد من الناس لأن له أخطاء كثيرة هو مثلا يحق لنا أن نسميه صاحب بدعة وبالتالي هل هو مبتدع، ما لنا ولهذه التعمقات، أنا أنصح بأن لا تتعمقوا هذا التعمق لأن الحقيقة نحن نشكو الآن هذه الفرقة التي طرأت على المنتسبين على دعوة الكتاب والسنة أو نقول نحن على الدعوة السلفية هذه الفرقة والله أعلم السبب الأكبر فيها هو حظ النفس الأمارة بالسوء وليس هو الخلاف في بعض الآراء الفكرية هذه نصيحتي.».
شیخ کے کلام کا خلاصہ اور مفہوم یہ ہے کہ اس طرح بال کی کھال اتار کر اور صغرے کبرے ملا کر لوگوں کو بدعتی بنانے اور منہج بدر کرنے کی کوشش نہ کریں، اس سے نفرتیں اور حسد و بغض ہی جنم لیتا ہے، اسی منفی رویے کی وجہ سے اہل حق گروہوں میں بٹ رہے ہیں، اور اس قسم کے اختلافات فکر و نظر اور دلائل و براہین سے زیادہ حظوظ نفس کی بنیاد پر پیدا ہو رہے ہیں۔
مولانا داؤد غزنوی اور مولانا مودودی کا تعلق
’’بہت سے مسائل کی تعبیر میں اختلاف رائے کے باوجود مولانا غزنوی رحمہ اللہ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا احترام کرتے اور مجموعی اعتبار سے ان کی خدمات کو سراہتے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ خود مولانا مودودی مشترکہ اسلامی معاملات میں ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے کو اہمیت دیتے۔ ایک معاملہ تو ایسا پیش آیا کہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ بار بار اس کا ذکر کرتے اور مولانا مودودی کو دعا دیتے تھے۔ وہ یہ کہ 1962ء میں حج کے موقع پر شاہ سعود مرحوم نے مدینہ یونیورسٹی کے زیرِ ترتیب نصاب اور ضروری امور میں مشوروں کے لیے مختلف ممالک کے اہل علم کو دعوت دی جس میں پاکستان سے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کو دعوتِ شرکت دی گئی تھی۔ مدینہ منورہ میں ان کے قیام کا انتظام ایک ہوٹل میں کیا گیا تھا۔
مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی بڑی صاحبزادی بھی ساتھ تھیں۔ ایک دن مولانا کو دل کا دَورہ پڑ گیا اور تکلیف بہت زیادہ ہو گئی۔ ان کی صاحبزادی سخت پریشان ہوئیں، کیونکہ ڈاکٹر کو بلانا اُن کے لیے مشکل تھا۔ مولانا مودودی کو معلوم ہوا تو فوراً تشریف لائے اور ڈاکٹر کو بلایا۔ دیر تک مولانا کے پاس بیٹھے رہے۔ لڑکی کو تسلی دی، ضروری دوائیں منگوائیں اور کئی بار مولانا کے پاس آئے۔ واپس آئے تو یہ واقعہ پوری تفصیل سے مولانا نے مختلف مواقع پر کئی بار بیان فرمایا اور ہر دفعہ مولانا مودودی کا ذکر احترام سے کیا اور اُن کے لیے دعائے خیر کی۔ [مولانا داؤ غزنوي، ص: 146]
1962ء میں جب شاہ سعود کی دعوت پر وہ حجاز تشریف لے گئے، تو مدینہ منورہ میں دل کے دمے کا شدید دورہ ہوا۔ واپسی پر مجھے بتاتے تھے: ’’مدینہ منورہ میں جس ہوٹل میں میرا قیام تھا مولانا مودودی صاحب بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے، جس رات مجھے دورہ پڑا، مولانا مودودی کئی گھنٹے میرے پاس بیٹھے رہے۔ جب تک مجھے افاقہ نہیں ہوا، وہ اپنے کمرے میں نہیں گئے۔‘‘
پھر مولانا مودودی صاحب کو دعا دی۔ ’’اللہ انہیں جزائے خیر دے۔‘‘ [مولانا داؤ غزنوي، ص: 273]
اسی طرح سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے بھی غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی خدمات کا اعتراف کیا ہے، جیسا کہ مقالات راشدیہ میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے۔
تو بھائی جان گزارش ہے کہ آپ اگر اس کو سہولت کاری بھی کہنا چاہتے ہیں تو کہیں، لیکن یہ تمام تر سہولت کاری معتبر اہل علم اور مشایخ سے رہنمائی لے کر ہی کی جا رہی ہے۔
یہ کس قدر تنگ نظری اور تحکم والی بات ہے کہ اپنے ہی معتبر مشایخ اور اہل علم کے تعامل اور رویے کے پرچار اور نشر و اشاعت پر ہمز و لمز شروع کر دیا جائے!
ایک ہی مسئلہ میں مختلف مشایخ اور ان کے تعامل میں فرق
مرکز التربیہ فیصل آباد میں دوران کلاس حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ کی ویڈیو موجود ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ مودودی صاحب کی تفسیر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
اسی ادارے کے ایک اور بڑے عالم دین حافظ محمد شریف حفظہ اللہ کے متعلق پوسٹ گردش کر رہی ہے کہ انہوں نے مسجد سے مودودی صاحب کی تفسیر اٹھوا دی۔
ہر کوئی اپنے اپنے حساب سے دونوں پوسٹوں کو شیئر کر رہا ہے… اور یہ چاہتا ہے کہ جو میرا موقف ہے، اسی کو مان لیا جائے… حالانکہ ثابت اس سے یہ ہو رہا ہے کہ یہ کوئی ایسا سکہ بند مسئلہ نہیں کہ تمام علمائے کرام اس میں کسی ایک نکتے پر متفق ہوں، بلکہ اس حوالے سے معتبر اور کبار اہل علم کے تعامل میں فرق ہے!!
ہمارے استاد محترم حافظ ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ کے دو جلیل القدر اساتذہ تھے.. ایک حافظ عبد اللہ محدث روپڑی اور دوسرے حافظ عبد الغفار حسن رحمہما اللہ.
ایک مودودی صاحب کے سخت مخالف، جبکہ دوسرے ایک عرصے تک جماعت اسلامی کا حصہ رہے!
ایک اہل حدیث عالم دین کہہ رہے ہیں کہ مولانا مودودی نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے، جبکہ دوسری طرف محدث مدینہ ضیاء الرحمن اعظمی جیسے اکابرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے قبول اسلام کا ذریعہ مولانا مودودی کا لٹریچر بنا!
کیا ایسے مسائل میں ایک دوسرے پر دھونس دھاندلی جمانا درست رویہ ہے؟
مولانا مودودی کی کتابوں کو پڑھنا درست نہیں، جائز نہیں وغیرہ پر مسلسل مشایخ کے بیانات نقل کرنے والے دوستوں کے سامنے جب شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی حفظہ اللہ کا کلپ آیا تو فورا کہنا شروع کردیا کہ ایسے حساس اور متنازعہ مسائل میں مشایخ کی ریکارڈنگز نشر کرنا مناسب نہیں!
ایک ہی مسئلے میں دو موقف ہیں، اگر ایک طرف کی بات نشر کرنا جائز ہے، تو دوسری سے منع کرنے کا کیا مطلب ہے؟!
جن مسائل میں مشایخ کرام مخالف نقطہ نظر کو برداشت کر رہے ہیں، ان میں ہم طالبعلموں کو بھی مشایخ کی اتباع میں ہی سہی، کم از کم مخالف موقف کے لیے وسعت پیدا کرلینی چاہیے!
#خیال_خاطر