اعتکاف: مجموعہء خیرات وبرکات عبادت

رمضان المبارک میں کی جانے والی ایک عظیم عبادت اعتکاف ہے، صحیح بخاری میں أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها فرماتی ہیں کہ:

“أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ‌كَانَ ‌يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ”.

نبی کریم ﷺ اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔

اعتکاف ایسی عبادت ہے جو بہت سی برکات اور خیرات کا مجموعہ ہے:

(1) اعتکاف کے دوران بندہ اپنے رب کے تقرب کی لذت سے آشنا ہوتا ہے۔

(2) اعتکاف میں بندہ

﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾

پہ عمل کرتے ہوئے اللہ کی طرف توجہ اور یکسوئی جیسی ایمانی کیفیات عام حالات کی نسبت بہت زیادہ محسوس کر سکتا ہے۔

(3) خلوت میں اللہ کی یاد کی بڑی فضلیت ہے، اعتکاف میں بندہ خلوت میں اپنی زندگی کے حالات پہ نظر دوڑائے، اللہ کی ایک ایک نعمت کو سوچے اور شمار کرے، اس کے بدلے اپنا ایک ایک گناہ سوچے اور شمار کرے، اور پھر اللہ کے احسانات اور اپنی نافرمانیوں کو یاد کر کے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، اور پھر اگر آنکھوں سے آنسو بھی نکل آئیں تو قیامت کے روز اللہ کے عرش کے سائے کا مستحق بن جائے۔

(4) ایسا مومن جس کا دل مسجد کے ساتھ جڑ جائے وہ بھی روز قیامت اللہ کے عرش کے سائے تلے جگہ پانے والوں میں سے ہو گا، آج زندگی کی افراتفری کہاں دل کو مسجد کے ساتھ ایسے جڑنے دیتی ہے، لیکن اعتکاف کے ذریعے بندہ یہ شرف ضرور پا سکتا ہے کہ ان چند ایام میں وہ ایک بار جب یہ لذت اور مٹھاس پا لے گا تو رمضان کے بعد بھی ضرور مسجد میں ہی اسے قرار ملے گا۔

(5) اعتکاف میں بندہ لیلۃ القدر جیسی عظیم رات با آسانی پا سکتا ہے۔

(6) کثرت سے نوافل کا موقع ملتا ہے، جس سے اللہ تعالی اسے اپنا مقرب اور محبوب بندہ بنا لیتے ہیں،

“وَمَا يَزالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إلَيَّ بالنَّوافِلِ حتَّى أُحِبَّهُ”.

(7) اپنی ضروریات، حاجات اور خواہشات اللہ کے حضور پیش کر کے قبولیت کی دعا اور التجا کا وافر موقع ملتا ہے، اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز ومکرم چیز (عبادت) کوئی نہیں ہے، بالخصوص وہ اوقات جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ان میں دعا رد نہیں ہوتی، وہ اوقات با آسانی میسر آتے ہیں۔

(8) اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور وفکر کا اہتمام نہیں کر پاتے تو اعتکاف میں ہم قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق پیدا کر سکتے ہیں، یہ قیامت کے دن ہمارا ایسا سفارشی بن سکتا ہے جس کی سفارش رد نہیں ہوگی۔

(9) بندے کو اعتکاف میں یہ موقع میسر آتا ہے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اپنے اعمال کا حساب کتاب کرے، اللہ کے ساتھ تعلق کا حساب کرے، لوگوں کے ساتھ رویوں اور معاملات پہ غور کرے، اسے ادراک ہو گا کہ اس کے نفس میں کون سی برائیاں ہیں، حقوق العباد اور حقوق اللہ میں کہاں اس سے کوتاہیاں ہو رہی ہیں، بندہ جب تک یہ حساب کتاب نہیں کرتا اپنی اصلاح بھی نہیں کر سکتا، تو اعتکاف بندے کی زندگی میں ایک نئی صبح کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔

لیکن! یہ سعادت بھی خوش نصیب کے حصے میں ہی آ سکتی ہے جسے اللہ تعالی خاص توفیق سے نوازیں، آج ہر انسان جس رفتار کے ساتھ زندگی جی رہا ہے اس میں اتنے عرصے کا بریک لینا یقینا مشکل نظر آتا ہے، پھر اگر نفس بھی اتنا باغی، آوارہ اور بندے کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہو کہ موبائل انٹرنیٹ وغیرہ چیزوں سے ایک لمحہ کیلیے بھی دوری برداشت نہ کر سکتا ہو، تو بظاہر نا ممکن نظر آتا ہے، لیکن تقوی کے حصول کیلیے اخلاص شرط ہے، اگر بندہ اخلاص کے ساتھ نیت کر لے تو اللہ کی مدد اسے ضرور حاصل ہوتی ہے۔

﴿وَأَنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يُرِيدُ﴾، ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ﴾.

اللہ تعالی ہمیں اس عظیم عبادت کو اس کی اصل روح کے ساتھ کرنے کی توفیق سے نوازیں۔

حافظ عبد المنان زاهدي

یہ بھی پڑھیں: بامقصد زندگی گزاریں