برا ہو ان ناولوں، فلموں، ڈراموں کا کہ انہوں نے نہایت چالاکی سے ایک پاکیزہ معاشرے سے “میرج پروپوزل” یعنی نکاح کی پیشکش کو “اظہار محبت” سے تبدیل کر دیا ہے ۔۔۔۔
لڑکے کو کوئی لڑکی پسند آ جائے تو وہ نکاح کا نہیں سوچتا، دوستی کا سوچتا ہے؛ حلال خلوت کا نہیں سوچتا، ڈیٹنگ کا سوچتا ہے؛ ذمہ داری کا نہیں سوچتا، قربت کے لمحات کے وقتی لطف کا سوچتا ہے۔ کیوں کہ اسکے لاشعور میں معاشرے نے یہ بات ایلفی کے ساتھ چپکا دی ہے کہ ابھی تمہاری شادی کی عمر نہیں، ابھی تم میچیور نہیں، ابھی تم خودمختار نہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ اور اپنے ارد گرد اسی زہریلے ماحول کو دیکھتے اور اسی میں پلتے بڑھتے، وہ اس بات پر یقین کر لیتا ہے کہ سولہ سے اٹھارہ سال کی عمر تک میچیور ہونا، خود مختار ہونا اور شادی کے قابل ہونا ناممکن ہے، لہٰذا وہ اسکی کوئی کوشش بھی نہیں کرتا۔۔۔
رہیں لڑکیاں، تو ان کا معاملہ بالکل ہی الٹ ہے۔ ایک مصنوعی اور غیر فطری غیرت کے نام پر معاشرے میں انہیں کبھی نکاح کیلئے اپنی پسند کے اظہار کا حق ہی نہیں دیا گیا، دوستی وغیرہ تو رہی دور کی بات۔۔۔ اسکا نتیجہ فیمن ازم کے عفریت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے.
اچھا اگر لڑکے کو کوئی لڑکی پسند آ ہی جائے تو عموماً اسکی بنیاد محض ظاہری خوبصورتی ہوتی ہے کیونکہ ظاہر ہے وہ ابھی میچیور تو ہوا ہی نہیں، کہ ابھی عمر ہی کیا ہے۔۔۔!!!
پھر وہ “اظہار محبت” سے بھی ڈرتا رہتا ہے کہ بیچارے کی کنفیوژن یہ ہے کہ اندر کا مسلمان زور دے رہا ہوتا ہے کہ اس سے شادی کرنی ہے، اور معاشرے کے سیکولر اثرات چیخ رہے ہوتے ہیں کہ دوستی کرنی ہے۔۔۔ تو باطن اور خارج کی یہ جنگ پہلی خرابی بنتی ہے۔
اوپر سے دوسرا خوف بیچارے کو یہ ہوتا ہے کہ آگے سے انکار ہو گیا تو کیا ہو گا؟ اسکی “امیچیورٹی” اسے اس سے آگے سوچنے ہی نہیں دیتی کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ انکار ہو گیا تو چند روزہ دکھ کے بعد اسکا بہت سارا وقت برباد ہونے سے بچ جائے گا، جو وہ خواب و خیال میں اسے اپنی ہیروئن بنائے کئی ماہ و سال نکال دیتا ہے ۔۔۔
اس سے اگلی مصیبت یہ ہے کہ آگے سے یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ اظہار محبت کے بعد لڑکی خود فیصلہ کرے گی یا اپنے والدین پر ڈال دے گی؟ بظاہر آزاد خیال نظر آنے والی لڑکیاں بھی دوستی کی بجائے نکاح کے پروپوزل کو پسند کرتی ہیں، اور اپنے والدین کے بغیر خود سے فیصلہ نہیں کرتیں۔۔۔ تو اب اس گتھی کو کیسے سلجھائیں؟
اگلی خرابی یہ ہے کہ لڑکی مان گئی تو اسکے والدین مانیں گے یا نہیں۔۔۔ رشتے داریاں نبھانے یا کاروباری فائدے کیلئے اسے کسی “ڈیل” کا حصہ تو نہیں بنا دیں گے ۔۔۔
یعنی اتنی ساری پیچیدگیاں اس ایک مسئلے کے اندر موجود ہیں، جو ہر انسان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ کیونکہ جب آپ دین اور لادینیت کو جمع کر کے کوئی مغلوبہ تیار کرنا چاہتے ہیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ایک طرف فلموں میں، محاورتاً نہیں حقیقتاً، مادر پدر آزادی والا مغربی طرز زندگی نظر آتا ہے کہ “لڑکا لڑکی راضی تو کیا کرے گا قاضی”۔۔۔ تو دوسری طرف مذہبی پابندیاں ہیں جو کچھ تو حقیقی ہیں اور زیادہ تر مصنوعی۔ سو جو حقیقی ہیں انہیں ہم نے انہیں عذاب سمجھ لیا ہے، اور جو خود ساختہ ہیں انہیں ہم نے عذاب بنا لیا ہے۔۔۔۔
اب ہارمونز کے اندرونی طوفان اور فحاشی کے بیرونی سیلاب کے آگے کتنے بیچارے، “امیچیور” لڑکے ٹھہر سکتے ہیں؟!!!
نتیجہ: دین سے دوری، مولوی سے نفرت، والدین اور رشتے داروں سے بغض اور بالآخر لادینیت اور الحاد۔۔۔!!!
ڈاکٹر رضوان اسد خان