سوال (4953)
جب بندہ فوت ہوجاتا ہے تو کیا اس کا کوئی سلسلہ دنیا سے رہتا ہے؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب
سوال آپ کا غیر واضح ہے، سوال میں کامل و اکمل وضاحت کریں کہ آپ کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں، شاید آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ انسان کی روح نکلنے کے بعد اس کا دنیاوی لوگوں سے کیا تعلق رہتا ہے، یا قبر کے معاملات جاننا چاہ رہے ہیں، جن کو برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس میں اس کا معاملہ کس نوعیت کا ہوتا ہے، پہلے سوال کی وضاحت کریں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: سوال یہ ہے کہ میت کا دنیا سے کوئی تعلق ہے، کیا وہ کھانا اور روٹی مانگتا ہے، اس کے علاؤہ کوئی اور میت کا دنیا میں رابطہ ہوتا ہے؟ اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔
جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرۡيَةٍ اَهۡلَكۡنٰهَاۤ اَنَّهُمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَ” [الأنبياء: 95]
اور لازم ہے اس بستی پر جسے ہم ہلاک کر دیں کہ وہ واپس نہیں لوٹیں گے۔
قرآن مجید نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ جو شخص فوت ہوگیا، اس کا دنیا میں واپس آنا حرام ہے، یہ لوگوں نے بنا رکھا ہے، دین اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے، یہ ہندو سے لیا گیا ہے، جن کا سات جنم جا عقیدہ ہوتا ہے، جو دنیا سے رخصت کر گیا ہے، بات ختم ہوگئی ہے، اب اس کا یہاں کوئی لین دین کا معاملہ نہیں ہے، ہاں باقی ایصال ثواب کی وہ صورتیں جائز ہیں، جو شریعت میں جائز ہیں، مردے کا معاملہ دنیا سے ختم ہو جاتا ہے، اس کی قبر میں جب اس کے درجات بلند کیے جاتے ہیں تو یہ پوچھتا ہے کہ یہ کیا معاملہ ہے، تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ اس لیے ہے یہ تیرا بیٹا استغفار کر رہا ہے، یہ قبر کا معاملہ ہے، اس کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ