سوال (593)
رکوع سے اٹھنے کے بعد جب امام صاحب سمع اللہ لمن حمدہ کہیں گے، کیا اس کے بعد مقتدی بھی یہ الفاظ کہیں گے یا وہ “ربنا ولک الحمد” پڑھیں گے؟ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جب امام “سمع اللہ لمن حمدہ” کہے تو تم “ربنا ولک الحمد” پڑھو۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب
اس میں دونوں موقف موجود ہیں زیادہ رجحان امام و مقتدی کا سمع اللہ لمن حمدہ کہنے پر ہے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
مقتدی بھی “سمع اللہ لمن حمدہ”کے الفاظ پڑھیں گے۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
جس طرح حدیث آتی ہے کہ جب امام “غير المغضوب عليهم ولا الضالين” پڑھے تو تم “آمين” کہو۔ اب اس میں یہ نہیں ہے کہ امام “غير المغضوب عليهم ولا الضالين” کہے گا اور “آمین” نہیں کہے گا، بلکہ امام و مقتدی دونوں”آمین” کہیں گے، یہ حدیث بھی اسی طرح ہے کہ جب امام “سمع اللہ لمن حمدہ” کہے تو تم “ربنا ولک الحمد” پڑھو، جس طرح امام بھی آمین کہیں گے اور مقتدی بھی آمین کہیں گے، اسی طرح یہاں ہے مقتدی اور امام دونوں “ربنا ولک الحمد” کہیں گے۔
باقی اس میں دونوں موقف موجود ہیں، صحیح روایت سے امام اور مأمون دونوں کا دونوں کلمات کہنا ثابت نہیں ہے، البتہ دارقطنی میں ابوھریرہ سے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا عمل ایک روایت سے ضرور ملتا ہے.
“کُنَّا اِذَا صَلَّینَا خَلفَ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ قَالَ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ ۔ قَالَ: من وَّرَائَهٗ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ”
اس روایت میں اظہر من الشمس ہے کہ امام اور مقتدی دونوں ہی “سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ” کہیں اور “رَبَّنَا لَکَ الحَمد” بھی، یعنی تقسیم نہیں۔
اب ایک طرف عمل ہے اور دوسری طرف روایت کے الفاظ “فقولوا” کے حکم کے ساتھ ہیں.
جو مقتدی کے دونوں کلمات کہنے کے قائل ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ “فقولوا” سے وقت کی تعیین ہے تاکہ فاتحہ مکمل کر کے اطمنان سے سمع اللہ لمن حمدہ بھی کہہ لیا جائے اور مقتدی تب تک تحمید نہ کہے جب تک امام تسمیع نہ کہہ لے، اور دوسری طرف ظاھر پر اکتفاء ہے کہ جیسے حکم ہے ویسے کیا جائے، اصول حدیث میں قول کو فعل پر درجہ بھی اگرچہ حاصل ہے، اب آپ دونوں کو دیکھ لیں اور جس پر عمل کرنا چاہیں کیجئے۔
واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ
امام اور مقتدی دونوں اپنی اپنی نماز کے پابند ہیں، الا یہ کہ کوئی دلیل یا قرینہ صارفہ مل جائے، کہ یہاں اس نے امام کی اقتداء نہیں کرنی ہے، بس یہ بات، اصول اور قاعدہ ہے، تو “سمع اللہ لمن حمدہ” مقتدی سے چھوڑ دینے پر اصرار کرنا اس پر دلیل چاہیے، عمومات سے اس طرح کا استدلال دیگر روایات کو چھوڑ کے پھر تو اچھا خاصہ مسئلہ خراب ہو جائے گا، پھر سارے مسئلے الجھ جائیں گے، اور اتنے عموم میں چلے جانا یہ بھی ظاہریت کہلاتی ہے، ظاہریت کوئی اچھی چیز نہیں ہے، تو پہلے “سمع اللہ لمن حمدہ” کہے گا پھر “رَبَّنَا لَکَ الحَمد” کہے گا، یہی بات راجح ہے، اس کی طرف دلائل ہیں، یہی وہ چیز ہے جس کے خلاف قرینہ صارفہ نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اذاقال الامام سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا و لك الحمد.
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
سائل: مقتدی بھی “سمع الله لمن حمده” کہیں؟
جواب: زائد الفاظ والی روایت شاذ ہے، البتہ اذکار و کلمات جو نماز کی بابت وارد ہوئے، مقتدی و امام کو علی الاطلاق شامل باعتبار ادا کے الا کہ نص اسے خارج کر دے، یہ نہیں کہا کہ سمع اللہ من حمد نہ کہے اور جو الفاظ آئے ہیں وہ کہنے سے مقتدی خارج کیسے ہو گیا ہے۔ “فقولوا آمین” والی روایات پر بھی غور کیا جائے۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
بارك الله فيكم جميعا وعافاكم
اس مسئلہ میں راجح مولانا اسامہ شوکت صاحب کا موقف ہے، سلف صالحین سے دونوں طرح کے موقف ملتے ہیں۔
امام عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں:
ﺇﻥ ﻛﻨﺖ ﻣﻊ ﺇﻣﺎﻡ ﻓﻘﺎﻝ: ﺳﻤﻊ اﻟﻠﻪ ﻟﻤﻦ ﺣﻤﺪﻩ، ﻓﺈﻥ ﻗﻠﺖ: ﺳﻤﻊ اﻟﻠﻪ ﻟﻤﻦ ﺣﻤﺪﻩ ﺃﻳﻀﺎ ﻓﺤﺴﻦ، ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﻘﻞ ﻣﻊ اﻹﻣﺎﻡ ﺳﻤﻊ اﻟﻠﻪ ﻟﻤﻦ ﺣﻤﺪﻩ ﻓﻘﺪ ﺃﺟﺰﺃ ﻋﻨﻚ، ﻭﺃﻥ ﺗﺠﻤﻌﻬﻤﺎ ﻣﻊ اﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻲ. [مصنف عبدالرزاق : 2919 صحیح]
ثقہ تابعی امام محمد بن سیرین نے فرمایا:
ﺇﺫا ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻊ اﻟﻠﻪ ﻟﻤﻦ ﺣﻤﺪﻩ، ﻗﺎﻝ ﻣﻦ ﺧﻠﻔﻪ ﺳﻤﻊ اﻟﻠﻪ ﻟﻤﻦ ﺣﻤﺪﻩ، اللهم ﺭﺑﻨﺎ ﻟﻚ اﻟﺤﻤﺪ
[مصنف ابن أبي شيبة: 2600 صحيح]
اسی طرح دوسری طرف سلف صالحین سے بعض کہتے ہیں کہ مقتدی ربنا ولك الحمد کہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ