سوال (4873)

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں ایک آدمی فوت ہو گیا جو پیدا بھی وہیں ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی علیہ السلام نے اس کا جنازہ پڑھا، پھر فرمایا: ”کاش کہ یہ اپنی پیدائش والی جگہ سے باہر فوت ہوتا۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ نے فرمایا: ”آدمی جب اپنی پیدائش کی جگہ سے دور فوت ہوتا ہے تو جنت میں اسے اس کی پیدائش گاہ سے موت کی جگہ تک کا فاصلہ ماپ کر جنت دی جاتی ہے۔ [سنن نسائی: 1833]
حدیث کی صحت پر حکم درکار ہے؟

جواب

سنن ابن ماجہ/الجنائز 61 (1614)، (تحفة الأشراف: 8856) ، مسند احمد 2/177 (حسن)
قال الشيخ زبير علي زئي: إسناده حسن
سنن النسائی/الجنائز 8 (1833)، ( تحفة الأشراف: 8856 )، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/177) (حسن) (سند میں حُيَيُّ بن عبد اللہ المعافری ضعیف ہیں، اور ان کی احادیث منکر ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے)
قال الشيخ زبير علي زئي: إسناده حسن

فضیلۃ الباحث عبد اللہ عزام حفظہ اللہ

ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎﺕ ﺭﺟﻞ ﺑﺎﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻣﻤﻦ ﻭﻟﺪ ﺑﻬﺎ، ﻓﺼﻠﻰ ﻋﻠﻴﻪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﻳﺎ ﻟﻴﺘﻪ ﻣﺎﺕ ﺑﻐﻴﺮ ﻣﻮﻟﺪﻩ۔۔۔( مسند أحمد بن حنبل:6656 ،سنن نسائی :1832،سنن ابن ماجہ:1614 ، صحیح ابن حبان 2934 ،المعجم الکبیر:13/ 39

یہ روایت غیر محفوظ ومنکر ہے اور شیخ زبیر رحمه الله تعالى نے اس پر حسن کا جو حکم لگایا وہ مرجوح ہے۔
امام نسائی جیسے ناقد امام نے فرمایا:

ﺣﻴﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻟﻴﺲ ﻣﻤﻦ ﻳﻌﺘﻤﺪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﻏﻴﺮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ، ﻷﻥ اﻟﺼﺤﻴﺢ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ اﺳﺘﻄﺎﻉ ﻣﻨﻜﻢ ﺃﻥ ﻳﻤﻮﺕ ﺑﺎﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻓﺈﻧﻲ ﺃﺷﻔﻊ ﻟﻤﻦﻣﺎﺕ ﺑﻬﺎ، (سنن ترمذی:3913،مسند أحمد بن حنبل:5437،5818، سنن ابن ماجہ:3112)
السنن الکبری للنسائی:1971)

اس روایت کو حافظ نووی خلاصة الأحكام:/ 1068،شیخ مصطفی العدوی،مسند أحمد بن حنبل کے محققین نے ضعیف وغیر ثابت قرار دیا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق یہ روایت ضعیف ہی ہے اگرچہ بعض اہل علم نے اس کی توجیہ و تاویل کی ہے مگر ان کے برعکس امام نسائی جیسے ناقد وعلل کے ماہر کی کا موقف ہی راجح ہے۔
مختصرا گو حییی بن عبد الله صدوق ہے مگر اس کے ضبط میں کلام ہے اور یہاں اس کا تفرد ہے اور اس روایت پر امام نسائی کی جرح مفسر ہے۔
باقی اس کی وہ روایت جو کسی صحیح حدیث وثقات کے مخالف نہ ہو اور فضائل ورقائق وزھد سے تعلق رکھتی ہو قبول کی جائے گی۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل:

أخبرنا يونس بن عبد الأعلى قال أنبأنا ابن وهب قال أخبرني حيي بن عبد الله عن أبي عبد الرحمن الحبلي عن عبد الله بن عمرو قال مات رجل بالمدينة ممن ولد بها فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال ياليته مات بغير مولده قالوا ولم ذاك يا رسول الله قال إن الرجل إذا مات بغير مولده قيس له من مولده إلى منقطع أثره في الجنة

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں ایک آدمی فوت ہو گیا جو پیدا بھی وہیں ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھا پھر فرمایا کاش کہ یہ اپنی پیدائش والی جگہ سے باہر فوت ہوتا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیوں آپ نے فرمایا آدمی جب اپنی پیدائش کی جگہ سے دور فوت ہوتا ہے تو جنت میں اسے اس کی پیدائش گاہ سے موت کی جگہ تک کا فاصلہ ماپ کر جنت دی جاتی ہے
تخریج:سنن نسائی رقم الحدیث 1832
السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث 1971
سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 1614
مسند احمد رقم الحدیث 6656
صحیح ابن حبان رقم الحدیث 2934
المعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث 90
شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث 9421
تحقیق، وسندہ حسن
تنبیہ:دو باتیں یاد رکھیں جو درج ذیل ہیں۔
مسند احمد والی سند میں عبد اللہ بن لھیعہ راوی ہے اس کی عبد اللہ بن وھب المصری نے کی ہے نسائی وغیرہ کتب میں اور سماع کی صراحت بھی کردی ہے الحمدللہ
دوسری بات حیی بن عبداللہ المعافری ثقہ عند الجمھور راوی ہے۔
امام نسائی رحمہ الله نے اس روایت پر جو جرح پیش کی ہے وہ اس لیے قبول نہیں کی جاسکتی کی حیی بن عبداللہ المعافری پر جرح کر کے روایت پر جرح کی ہے اگر امام نسائی رحمہ الله متعلق طور پر روایت پر جرح کرتے تو پھر نسائی رحمہ الله کے قول کو ترجیح حاصل ہوتی اب جس راوی کی بنیاد پر جرح کی ہے وہ ثقہ ہے لھذا حدیث حسن ہے ان شاءاللہ عزوجل، ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
شیخ کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: یہ طریقہ تحقیق مرجوح ہے۔
امام نسائی جیسے ناقد وعلل کے ماہر فن محدث کو راوی اور روایت دونوں کا بخوبی علم تھا، یہ روای ثقہ ہرگز نہیں ہے بلکہ صدوق کے مرتبہ پر ہے ایسے راوی کی منفرد روایت احکام میں حجت نہیں ہے، کاش ہم ائمہ علل کے منہج و تعامل کو اختیار کریں، باقی دوسری طرف کے اہل علم کو بھی حق حاصل ہے موقف رکھنے کا مگر حق وہی ہے جو پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ