جدید فتنوں کے رد کے لیے روایتی علوم میں پختگی ضروری ہے
ہم نے دینی مدارس کے اندر عقدی و کلامی مباحث پڑھیں، منطق و بلاغہ جیسے دروس سے طوعا کرہا گزرے، سنتے کہتے رہے کہ ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں، یہ سب کچھ پرانا ہو گیا ہے، جہمیہ، معتزلہ مرے ہوئے فرقوں کو مزید مارنے کی کیا ضرورت ہے؟
لیکن اب آہستہ آہستہ سمجھ آ رہی ہے کہ وہ ساری اصطلاحات جو عربی اردو میں بولی جائیں تو غیر ضروری اور فرسودہ لگتی ہیں، وہی باتیں انگلش میں کی جائیں تو اسے ’علم’ سمجھا جاتا ہے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ شاید مولویوں سے ہٹ کر کوئی نئی چیز آ گئی ہے، جس کو سیکھنا بہت ضروری ہے۔
ہاں روایتی نصاب کے حوالے سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس میں روایتی علوم و فنون کو معاشرے کے ساتھ جوڑنے/ ریلیٹ کرنے اور جدید حالات و مسائل پر ان کی تطبیق و تنزیل کا رجحان پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ان کے غیر ضروری ہونے کا تاثر ختم ہو۔
قدیم و روایتی علوم سے جڑے ہوئے لوگوں کے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مباحثے میں انگریزی کی کوئی اصطلاح سمجھ نہ آنے پر جاوید اختر کی بہت جگ ہنسائی ہوئی، لیکن اسی مباحثے میں الحکیم، العلیم جیسے عربی الفاظ کسی کو سمجھ نہ آنے پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی، بلکہ بولنے والا باقاعدہ معذرت کرتا تھا کہ میں نے مشکل اسلامی اصطلاحات کا استعمال کیا۔
بہرصورت یہ حقیقت ہے کہ اگر مفتی شمائل صاحب کو انگریزی پر دسترس نہ ہوتی تو ان کا اتنا چرچا ہوتا نہ لوگوں کو ان کی باتوں میں اتنا وزن نظر آتا، لہذا اس نقطہ نظر سے انگریزی اور رائج کلامی اسلوب کو سیکھا جائے تو بہت بہتر، بلکہ فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
مفتی صاحب نے انگریزی بولی ہر طرف بلے بلے ہو گئی، یہی مفتی صاحب اس سے بہتر اور اچھی زبان عربی یا اردو کی گاڑی اصطلاحات بولتے، لوگوں کو سمجھ آتی نہ کوئی متاثر ہوتا، بلکہ الٹا کہا جاتا کہ یہ کنویں کا مینڈک ہے، وہی پھٹی پرانی کہانیاں سنا کر چلا گیا ہے…!
اس کہانی کا دوسرا پہلو جس کو واضح کرنا ضروری ہے کہ مفتی شمائل اور مفتی یاسر وغیرہ الحاد کا رد کرنے والے علماء باقاعدہ یہ بتا رہے ہیں کہ ہم نے جو کچھ بھی سیکھا، یہ سب روایتی کتابوں سے ہی لیا ہے، پھر اس کے لیے انہوں نے حجۃ البالغہ، عبقات از شاہ اسماعیل، عقائد تفتازانی، الانتباہات المفیدۃ، مولانا نانوتوی، مولانا انور شاہ کشمیری وغیرہ علماء کی کتابوں کے نام گنوائے کہ جن کو پڑھ سمجھ کر وہ ملحدین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں!
اس میں انہوں نے بطور مثال نظریہ دوران، حدوث عالم، مکان و لامکان کی بحثوں کا ذکر کیا۔
ہم چونکہ سلفی مکتبہ فکر سے ہیں، اس لیے ہمارے ہاں بعض مسائل اور کلامی مباحث میں نقطہ نظر کا اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن تفتازانی رحمہ اللہ بہر صورت ارسطو ورسطو اور ملحد و مردود ’کانٹ’ چھانٹ سے تو بہت بہتر ہیں۔
دوسری بات یہی مباحث الحمد للہ ابن تیمیہ و ابن قیم وغیرہ سلفی علماء کے ہاں بھی بہترین انداز سے مل جاتی ہیں.
لہذا جدید فتنوں کے مقابلے کے لیے بھی علماء و طلبہ کو روایتی علوم و فنون پر دسترس اور اثری علماء و مصنفین کے خرمنِ علم سے خوشہ چینی بہر صورت ضروری ہے۔
جس کی بنیادی دو وجوہات ہیں:
1۔ فتنہ نیا ہو یا پرانا اس کے رد کے لیے قرآن وسنت اور روایتی و اثری علوم میں پختگی ضروری ہے، ورنہ عین ممکن ہے کہ انسان ایک گمراہی کو رد کرتے ہوئے دوسری گمراہی میں مبتلا ہو جائے۔
2۔ جن فتنوں کو ہم نیا سمجھتے ہیں ان کی بنیادیں وہی پرانی گمراہیاں ہی ہیں، جن کا کافی و شافی رد علمائے کرام اپنی تصنیفات میں کر چکے ہیں۔
بہرصورت اہل حدیث اور سلفی مکتبہ فکر کے لیے تو بہت ہی آسانی ہے کہ وہ خود کو کس طرح اثر اور سلف کا بھی پابند رکھتے ہیں اور گزرتے وقت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ رہتے ہیں، جبکہ دیگر مکاتبِ فکر بھی اپنے اپنے انداز سے اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، چنانچہ اس سوچ کو تمام طلبہ میں عام ہونا چاہیے کہ جدید فتنوں کا مقابلہ بلکہ ان پر حملہ آور بھی ہونا ہے، لیکن خود کٹی پتنگ بھی نہیں بننا!
#خیال_خاطر




