سوال (3180)
ایک آدمی اپنا علاقہ چھوڑ کر کسی دور والے شہر میں بیوی بچوں سمیت مکمل طور پر رہائش اختیار کر چکا ہے، اب واپس آنے کا ارادہ بھی نہیں ہے، پھر کبھی کبھار کسی کام، شادی، غمی یا زمین کا ٹھیکہ لینے، اپنے عزیزوں سے ملنے کے ارادے سے دو تین دن اپنے آبائی گاؤں میں آئے (جہاں اس کی اب ذاتی رہائش نہیں ہے) یہاں نماز قصر کا کیا حکم ہے؟ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سیرت کی مثال سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب
ہمارے حافظ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ تعالی فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد ❶ صفحہ 140 پر لکھتے ہیں۔ فقہائے اسلام نے وطن کی دو اقسام لکھی ہیں:
1۔وطن اصلی: وہ مقام جہاں انسان پیدا ہوا ہے اور اپنے والدین یا اہل وعیال کے ہمراہ وہاں رہائش رکھے ہوئے ہو۔
2۔وطن اقامت: وہ مقام جہاں وہ شرعی مسافت سے زیادہ دنوں کے لئے رہائش رکھے ہوئے ہو۔
احکام کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، لہذا اگر کوئی انسان کاروبا ر کے لئے کسی دوسری جگہ چلا جاتا ہے اور اس کا پہلا گھر (وطن اصلی) بھی موجود ہے تو اس صورت میں جائے کاروبار یا جائے ملازمت (وطن اقامت ) اور رہائشی گھر اقامت ہی کے حکم میں ہیں۔ذاتی مکانات اگرچہ متعدد ہوں اور مختلف مقامات پر ہوں وہاں نماز پوری ادا کرنا ہوگی۔اسی طرح اپنی ذاتی زمین کی دیکھ بھال کے لئے کبھی کبھار جو سفر اختیار کرنا پڑتا ہے دوران سفر قصر اور زمین پر پہنچ کر پوری نماز پڑھنی ہوگی۔ ذاتی دکانوں اور پلاٹوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔
صورت مسئولہ میں ذاتی مکانات جہاں کہیں ہوں اور ذاتی زرعی زمین بھی جہاں کہیں ہو وہاں نماز پوری ادا کرنی ہوگی۔ کیوں کہ جب تک مکان یا ذاتی جائیداد موجود ہے، وہ اس کی اقامت گاہ ہے اور نماز کے لئے قصر کی رعایت مسافر کو ہے مقیم کو نہیں۔
ناقل: فضیلۃ العالم مرتضیٰ ساجد حفظہ اللہ
وہ اگر اتنی مسافت ہے جہاں نماز قصر کی جائے گی تو وہ نماز قصر ہی پڑھے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے مکہ کے باسی تھے، پھر مدینہ ہجرت کر گئے پھر جب مکہ آتے تو نماز سفر پڑھتے، حدیث کے الفاظ ہیں آپ بولتے تھے ہم مسافر آدمی ہیں۔
واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث نیاز اثری حفظہ اللہ