سوال (526)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ جہرا پڑھنا ثابت ہے، اس کے ادعیہ اور درود شریف جہرا ثابت نہیں ہے، اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب
نماز جنازہ کے حوالے سے اولی اور بہتر یہ ہے کہ سری پڑھی جائے جیسا کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّهُ قَالَ: «السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ أَنْ يَقْرَأَ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً،ثُمَّ يُكَبِّرَ ثَلَاثًا،وَالتَّسْلِيمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ»
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھے، پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے بعد سلام پھیر دے۔ (سنن النسائي: 1991)
تعلیم کی غرض سے نماز جنازہ جہرا پڑھی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے عمل سے ثابت ہے۔
طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں:
صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، قَالَ: لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ.
ہم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورة فاتحہ “ذرا بلند آواز سے” پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔ (صحیح البخاری: 1335)
عن طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ،قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ،فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ،وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا،فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ،فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: «سُنَّةٌ وَحَقٌّ»
حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک میت کا جنازہ پڑھا۔ انھوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورت پڑھی اور (دونوں) بلند آواز سے پڑھیں حتی کہ ہمیں سنائی دیں۔جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: یہ سنت اور حق ہے۔ (سنن النسائي: 1989)
طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں:
أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ. فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ أَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی تو انہوں نے سورة فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔ (سنن الترمذي: 1027)
تعلیم کی غرض سے جہر نماز جنازہ پڑھنے میں میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال: اہل حدیثوں نے نماز جنازہ کو جہری ہی لازم کر لیا ہے، لمبی لمبی دعائیں اور دعاؤں میں تکرار کو لازم کر لیا ہے اور درود شریف اور دعائیں پورے پورے مخارج کی ادائی کے ساتھ ساری صفات اور مد وقفی پورا کر کے پڑھتے ہیں، اور اس سے پہلے لوگوں کو کھڑا رکھتے درس دیتے اور مرحوم کی صفات بھی بیان کرتے ہیں، کوئی امیر آدمی ہو تو لمبا جنازہ پڑھاتے ہیں کوئی غریب آدمی ہو تو مختصر جنازہ پڑھاتے ہیں۔
یہ سب کا مشاہدہ ہوگا برائے مہربانی اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔
جواب: جنازہ جہرا اور سرا دونوں جائز ہے، بطور تعلیم جہرا پڑھنا لازم کردیا ہے تو الگ بات ہے، اس مسئلے میں کوئی سختی نہیں ہے، کیونکہ جواز دونوں کا ہے، جہاں تک دعاؤں کا تعلق ہے، تو مسنون دعاؤں کا اہتمام ہو، باقی عربی میں عبور حاصل ہے تو باقی بھی دعائیں کی جا سکتی ہے، مخارج کا اہتمام ہر نماز میں ہو، باقی کوئی تصنع کرتا ہے تو اس کا معاملہ اس کے رب کے ساتھ ہے، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، باقی درس کی جو بات ہے، وہ اگر قرض کے حوالے سے دو یا تین جملے بول دیے ہیں تو صحیح ہے، باقی کانفرس کی طرح درس دینے کی علماء نے مذمت کی ہے، باقی امیر کی بڑی نماز اور غریب کی چھوٹی یہ کبھی امام سے ہوتا ہے، کبھی میت کو دیکھ کر بھی کرتے ہیں، باقی اگر تصنع ہے تو اللہ تعالیٰ پوچھے گا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ




