” جیل کا ہر دروازہ جرم کی علامت نہیں ہوتا “
دنیا کا نظام ہمیشہ انصاف پر قائم نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات ظلم، بغض، حسد، اور سیاسی و ذاتی مقاصد کے تحت بے گناہ افراد کو بھی قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جیل کی دیواروں کے پیچھے صرف وہ لوگ نہیں ہوتے جو جرائم میں ملوث ہوتے ہیں، بلکہ ان میں وہ سچے، شریف اور پاکباز لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں جنہیں حالات، حسد، سازش یا غلط فہمی کی بنیاد پر قید کر دیا جاتا ہے۔
قرآنِ کریم میں سیدنا یوسف علیہ السلام کا واقعہ اسی سچائی کو واضح کرتا ہے۔ آپ نہ صرف پاک دامن تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے، مگر پھر بھی انہیں بدنامی کی ایک جھوٹی سازش کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا۔ اُن کا جُرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے فحاشی سے انکار کیا، حیا و پاکدامنی کو ترجیح دی، اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس صبر و تقویٰ کے بدلے اُنہیں نہ صرف جیل سے نکالا بلکہ مصر کا بادشاہ بنا دیا۔
یہ واقعہ آج کے معاشرے کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ ہمیں جیل کے ہر قیدی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ کوئی بے گناہ یوسف آج بھی زمانے کی سازشوں کا شکار ہو، اور ہم محض اس کا لباس یا مقام دیکھ کر اسے مجرم سمجھ بیٹھیں۔
جیل میں بیٹھے کئی افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو قانون کی غلط تشریح، جھوٹے مقدمات، یا کسی بااثر فرد کی دشمنی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے دکھ، بے بسی اور صبر کی کہانی کوئی نہیں جانتا۔ بسا اوقات معاشرہ ایسے افراد کو باہر آنے کے بعد بھی وہ عزت نہیں دیتا جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں چشمِ فلک نے ایک ایسے ہی بے قصور مجرم کو دیکھا کہ جسے لوگ مولانا عطاء اللہ بندیالوی کے نام سے جانتے ہیں، اگرچہ بندیالوی صاحب کا تعلق ہمارے مکتبہ فکر سے بالکل نہیں، لیکن اگر آج اہل حدیث کے لوگ ان سے عقیدت رکھتے ہیں تو فقط صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وکالت کی وجہ سے، ہم نے جب بھی پایا بندیالوی صاحب کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا شیدائی پایا، آج بھی اگر علماء اہل حدیث نے ان کی رہائی کے لئے پُرزور آواز اٹھائی ہے تو فقط صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وجہ سے اور یہ محبت و عقیدت تا قیامت جاری و ساری رہے گی۔
یاد رکھیں، جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وکالت و نوکری چاکری کرنے والے سے اس قدر محبت و الفت رکھتے ہیں کہ اس کے لئے اپنا مال و جان تک نچھاور کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو ذرا سوچئے کہ وہ صحابہ کرام سے کتنی محبت کرتے ہوں گے۔
یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء