سوال
کیا جعلی ناخن لگانا اور اس کا کاروبار کرنا جائز ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
ناخن دراصل انگلیوں کے پوروں کی حفاظت اور ہاتھوں کے حسن و جمال کے لیے ہیں، جعلی ناخن سے یہ دونوں مقاصد حاصل نہیں ہوتے، نہ یہ حقیقی حسن و جمال میں اضافہ کرتے ہیں اور نہ ہی پوروں کی حفاظت کا فائدہ دیتے ہیں، بلکہ یہ محض فیشن اور تکلف ہے۔
شریعت نے ہمیں فطرت کے اصولوں کو اپنانے کا حکم دیا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ناخنوں کو بڑھنے نہ دیا جائے بلکہ وقت پر کاٹا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“الْفِطْرَةُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَقَصُّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَنَتْفُ الْآبَاطِ”. [صحیح البخاری: 5891]
پانچ چیزیں ختنہ کرانا، زیر ناف مونڈنا، مونچھ کترانا، ناخن ترشوانا اور بغل کے بال نوچنا پیدائشی سنتیں اور فطرت میں سے ہیں۔
یعنی ناخن کاٹنا فطرت کے اعمال میں سے ہے۔ اس لیے انہیں بلاوجہ بڑھانا یا مصنوعی ناخن لگانا فطرت کے خلاف اور درندوں کے مشابہ ہے۔ مزید یہ کہ ان کی وجہ سے وضو اور غسل میں پانی اصل ناخن تک نہیں پہنچتا، جس سے طہارت ناقص رہتی ہے۔
اسی بنا پر جعلی ناخن لگانا درست نہیں ہے اور ان کا کاروبار کرنا بھی درست نہیں، کیونکہ یہ گناہ کے کام میں تعاون ہے، جبکہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
“وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ”. [المائدہ: 02]
گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
لہٰذا جعلی ناخن لگانے اور ان کا کاروبار کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ یہ شریعت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ




