جیسے حکمران ویسی سوچ
عربی کا ایک مقولہ ہے :
” الناس علی دین ملوکھم”.
“کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں ۔”
جیسا حاکم وقت ہوتا ہے ویسی ہی عموما اس کی رعیت ہوتی ہے ۔
اگر تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو چند ادوار کا پتا چلتا ہے۔
1) حجاج بن یوسف ( متوفی 95ھ )
حجاج بن یوسف کا دور قتل وغارت کا اور فتنہ وفساد کا دور تھا ۔کتنے ہی لوگ جیلوں میں بند کئے گئے ،کتنے ہی قتل کر دئے گئے ۔
صبح سویرے لوگوں میں اس قسم کی گفتگو ہوتی تھی :
” من قتل البارحة ومن صلب ومن جلد؟”
“کل کس کو قتل کیا گیا ،کون سولی پر چڑھایا گیا اور کس کو کوڑے مارے گئے ؟ ”
2) ولید بن عبد الملک ( متوفی 96 ھ )
ولید بن عبد الملک کے دور حکومت پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا وہ عمارتیں بنانے اور کارخانے لگانے کا شوقین تھا اس اس کے دور میں ایک دوسرے سے بلڈنگیں بنانے ،کارخانے لگانے ،نہریں کھودنے اور شجر کاری میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔
3) سلمان بن عبدالملک( متوفی 99ھ)
سلمان بن عبد الملک کا دور آیا تو وہ کھانے پینے کا شوقین تھا ۔
گانے بجانے سے بھی دل لبھا لیتا تھا، لوگ اس دور حکومت میں قسم ہا قسم کے کھانوں کی باتیں کرتےتھے ،مغنیات اور لونڈیوں کا ذکرِ عام ہوتا حتی کہ نجی مجالس میں بھی شادی اور تقریبات کے حوالے ہی سے گفتگو ہوا کرتی تھی ۔
( نوادر من التاریخ 81/1 تالیف صالح محمد الزمام)
نوٹ : امام ابن سیرین رحمۃ اللہ کہتے ہیں
” اللہ سلمان پر رحم کرے،انھوں نے اپنی خلافت کا آغاز احیاء نماز سے کیا اور اختتام عمر بن عبد العزیز کو خلیفہ نامزد کرنے پر ہوا ”
(سیر اعلام النبلاء ص125)
4) ہشام بن عبدالملک ( متوفی 125ھ)
ہشام بن عبد الملک کا دور حکومت دیکھا جائے تو اس زمانے میں لوگوں میں مال و دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے کا شوق بڑھ گیا تھا ۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ فلاں نے کتنی زمین خریدی ہیں، کس نے کتنا سونا جمع کر لیا ہے، اور کس کے کتنے محلات تیار ہو رہے ہیں۔ گویا کہ رعایا کے رجحانات اپنے بادشاہ کی روش کے مطابق ڈھلتے رہے۔
5) عباسی حاکم ہارون رشید ( متوفی 193ھ)
ہارون رشید جو 170 ھ میں اپنے بھائی ہادی کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا اور اسی روز کا اس کا بیٹا مامون پیدا ہوا تھا ۔
ان کے دور میں علم و ادب کو فروغ ملا۔ خود خلیفہ کو علماء و فضلاء کی صحبت میں بیٹھنے کا ذوق تھا۔ اس دور میں لوگوں کی محفلیں فقہ، حدیث، مناظرے اور علمی مجالس سے آباد رہتی تھیں۔ کتب خانوں کا قیام ہوا، ترجمہ کی تحریک شروع ہوئی اور عوامی سطح پر بھی علم کا چرچا عام ہوا۔ ایک عام گفتگو یہ ہوتی تھی: “فلاں کتاب پڑھی یا نہیں؟ فلاں عالم کی مجلس میں گئے یا نہیں؟”
6) مامون رشید( اصل نام عبد اللہ تھا متوفی 218 ھ)
مامون رشید کا دور آیا تو وہ فلسفے اور عقلیت کا دلدادہ تھا، اس زمانے میں عوامی سطح پر بھی فلسفے اور منطق کے مباحث عام ہو گئے۔
لوگ کہا کرتے تھے: “عقل کا فیصلہ کیا ہے؟ منطق کے اصول کیا کہتے ہیں؟”
حتی کہ عوام بھی عقلی بحث و مباحثوں میں حصہ لینے لگی۔
7) ابو اسحاق معتصم باللہ بن ہارون رشید
معتصم باللہ جو کہ عباسی خاندان میں بطور آٹھویں خلیفہ تھے جو مامون رشید کے بعد تخت نشین ہوئے تھے ۔
ان کے زمانے میں تقریبا آٹھ بڑی فتوحات ہوئیں جن میں مصر آذربائجان وغیرہ شامل ہیں ۔
اس زمانے میں عسکری قوت اور جنگی تیاریوں پر زور دیا گیا۔ رعایا میں بھی گفتگو کا عام موضوع یہ تھا کہ کس لشکر نے کہاں فتوحات حاصل کیں، کس جرنیل نے کتنے قلعے فتح کیے، اور دشمن پر کس طرح غلبہ پایا گیا۔
8) عمر بن عبد العزیز ( متوفی 101 ھ)
حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور سلطنت بنو امیہ کا سب سے نرالا اور شاندار دور تھا جس نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی۔ حالانکہ آپ کا دور خلافت محض دو سال پانچ ماہ کا رہا لیکن اس مختصر مدت میں انہوں نے وہ کارنامے انجام دیے کہ مسلمان انہیں پانچواں خلیفہ راشد قرار دیتے ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز کا سب سے بڑا کارنامہ ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہے۔
انہوں نے ظالم اور جابر عہدیداروں کو عہدوں سے ہٹایا، بیت المال کو رعایا کی ملکیت بنایا۔ اخلاق و کردار کی بلندی کے لحاظ سے وہ تابعین کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے عمل میں صحابہ کرام سے مشابہ تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کے دور میں ان کا عہد پہلی اور آخری مثال ہے کہ جب خلافت کے اسلامی تصور کی بالادستی قائم کرے کی کوشش کی گئی۔
آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کی قبیح رسم کو بند کرایا اور نو مسلموں سے جزیہ وصول کرنے کی بھی بندش کرائی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ان انقلابی اصلاحات نے ملوکیت کے اس استبدادی نظام اور اس کے تحت پرورش پانے والے مفاد پرست طبقے پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اس طبقے کی رہنمائی شاہی خاندان کے افراد کررہے تھے۔ حضرت عمر کی ان تیز رفتار اصلاحات سے ان کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ وہ خاندانی بادشاہت بھی ختم کردیں گے اور خلافت کو عام مسلمانوں کے حوالے کر جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو زہر دے کر شہید کردیا۔ شہادت کے وقت ان کی عمر محض 39 سال تھی۔
اس دور میں لوگ ایک دوسرے سے یہ پوچھا کرتے تھے کہ : تم نے کتنا قرآن پاک حفظ کیا ہے ۔ رات میں کتنے نوافل پڑھے ہیں ۔اس ماہ میں کتنے روزے رکھے ہیں ۔فلاں نے کتنا قرآن پاک حفظ کر لیا ہے اور فلاں کا کب ختم ہو رہا گا ۔
یوں تاریخ کے یہ اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ رعایا اپنے حکمرانوں کے مزاج، ذوق اور دین و فکر سے اثر لیے بغیر نہیں رہتی۔۔
#خیالات_ ابن _ الاعرابی
کامران الہی ظہیر