سوال (2153)

” مصر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعة الازہر جانے کا اتفاق ہوا۔
ہر لیکچر کے آخر میں کانفرنس کے شرکاء علماء سے اس سے بھی زیادہ سخت سوال کر رہے تھے، جو بچپن سے میرے دل میں تھے اور عالم جو دراصل جامعۃ الازہر کے پروفیسرز تھے۔
ہر سوال کا خندہ پیشانی سے جواب دے رہے تھے، ایک صاحب نے وہی سوال پوچھ لیا، میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب پروفیسر نے کہا میری خواہش تھی کوئی یہ سوال کرے
اور پھر قرآن کی آیات سے سوال کا جواب دیا۔
اب میری بھی ہمت بڑھی میں نے پوچھا
جناب جب خدا جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے، جسے چاہے ہدایت دے،
جسے چاہے گمراہی میں مبتلا کر دے، تو میں اسے مانوں نہ مانوں کیا فرق پڑتا ہے۔ پروفیسر صاحب تھوڑے سے مسکرائے اور بولے قُرآن میں احکامات دو طرح کے ہیں
ایک مُحکمات
اور دوسرے مُتشابہات۔
ضروری ہے کہ مُتشابہات کو مُحکمات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے
جن آیات میں یشاء اور تشاء آتا ہے
ان کا ترجمہ آپ کے ہاں مُتشابہات و مُحکمات کے عام اُصول کے تحت نہیں کیا جاتا اس لئے انڈیا اور پاکستان کے مسلمان خدا کے تصور کو غلط سمجھتے ہیں، اس کا عربی مفہوم یہ ہے کہ جو چاہتا ہے اللہ اسے عزت دیتا ہے اور جو چاہتا ہے اللہ اسے ذلت دیتا ہے، جو چاہتا ہے اللہ اسے ہدایت دیتا ہے، انہوں نے کہا اس آیت کو آپ ایک اور آیت کے مطابق دیکھیں جو مُحکمات میں سے ہے، جس کا مطلب ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرے، میں نے پھر بودا سا سوال کیا کہ
میں نے تو ہمیشہ عُلماء سے یہی سُنا ہے کہ اللہ توفیق دے تو ہی مُجھ سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے، کانفرنس روم میں قہقہہ گُونجا
پھر پروفیسر صاحب نے سورہ رعد کی آیت پڑھی کہ
“اللہ لوگوں میں کُچھ نہیں بدلتا جب تک وہ خود میں تبدیلی نہ لائیں”
میں پروفیسر صاحب کا جُملہ مُکمل ہونے سے پہلے بول پڑی کہ
یہ سب جو میں اس کانفرنس میں دو دن سے سُن رہی ہوں
اُس اسلام سے بالکُل مُختلف ہے جو میں آج تک عُلماء سے سُنتی آئی ہوں۔
اس پر پروفیسر صاحب نے سورہ بقرہ کی آیت پڑھی
“اور جب اُن سے کہا جائے اللہ کے اُتارے پر چلو تو کہیں گے ہم تو اُس پرچلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔ چاہے اُن کے باپ دادا نہ کُچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت”
کہنے لگے قرآن اللہ نے میرے اور تُمہارے لیے ہی اُتارا ہے
اسے خود پڑھتے اور سمجھتے کیوں نہیں
میرے یا کسی بھی مولوی کے محتاج کیوں ہوتے ہو۔
قرآن عین انسانی عقل کے مُطابق بات کرتا ہے۔
میں نے پھر سوال کیا کہ مُجھے تو آج تک علماء نے یہی بتایا ہے کہ
ایمان اور استدلال یعنی ریزن (reason) الگ الگ چیزیں ہیں
اور ریزنگ بھٹکا دیتی ہے۔
اس بار پروفیسر صاحب نے انڈین اور پاکستانی عُلماء کی کم علمی اور تنگ نظری کی وجوہات پر بات کی
اور سورہ انفال کی ایک آیت پڑھی کہ
“اللہ کی نظر میں وہ جانوروں سے بھی بد تر ہیں جو گُونگے بہرے بنے رہتے ہیں اور استدلال نہیں کرتے”
“بس پھر میں جیسے گُونگی ہو گئی”
“میرے سامنے سے جیسے اندھیرے چھٹ گئے”
میں نے بڑے خلوصِ دل سے کلمہ پڑھا کہ واقعی میرا خدا تو بالکل ویسا ہے
جیسا ایک خالق کو ہونا چاہیے ۔
کانفرنس کے اختتام پر پروفیسر صاحب نے قرآن کی انگلش ترجُمے والی کاپی گفٹ کی۔
ہر آیت مُجھے خود سے مُکالمہ کرتی سنائی دیتی۔
کچھ عرصہ بعد ایک نو مسلم گورے سے کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی۔
وہ اسلام کی پہلی دو صدیوں کے حوالے سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔
اُس کے ساتھ مل کر کُچھ سال اسلام کی ابتدائی اُٹھان
اور پھر اس میں فرقے بنتے ٹُکرے ہوتے تاریخ کی نظر سے دیکھا۔
یہ بھی دیکھا کہ کیسے لوگ قُرآن جیسا خزانہ چھوڑ کر روایات کی تلاش میں دہائیوں تک بھٹکتے پھرے۔
آج شیعہ کروڑوں میں ہیں
اور کروڑوں ہی سنّی
کہیں مالکی ہیں
کہیں حنبلی اور کہیں شافعی۔
ہر فرقے میں مزید تقسیم اور فرقے در فرقے ہیں۔
افسوس کہ ایسے لوگ کہیں مُشکل سے نظر آتے ہیں
جو وہابی ہوں نہ دیو بندی،
بریلوی ہوں نہ اہل حدیث
جن کا دین صرف اسلام ہو۔
جو قرآن و سُنّت میں استدلال کریں۔
سورہ یونس کی سویں آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا استعمال اور استدلال ایمان کی بُنیادی شرط ہے۔
اب میں فرقوں میں بٹے اپنی اپنی انا میں مدہوش مُسلمانوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ
کیا یہ دُنیا بھر میں ہوتی اپنی ذلّت کو نہیں دیکھتے
کیا یہ اب بھی نہیں جان پائے کہ اللہ کی رسی چھوڑ کر یہ ٹُکروں میں بٹ چُکے ہیں۔
شاید دل مُردہ ہونے سے اپنی ذلّت کا احساس ہی نہ ہوتا ہو۔
سورہ حج میں اللہ کہتے ہیں
“پس کیا وہ زمین میں نہیں پھرے تاکہ انہیں وہ دل ملتے جن سے وہ عقل سے کام لیتے یا ایسے کان نصیب ہوتے جن سے وہ سن سکتے”۔
پس آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ( سورۃ حج آیت نمبر سنتالیس)
میرے اردگرد کوئی سُنّی ہے کوئی شیعہ کوئی دیوبندی ہے کوئی بریلوی کوئی اہل حدیث ہے کوئی مُقلّد کوئی اہلِ قُرآن ہے کوئی غیر مقلّد۔ مُجھے مُسلمان کی تلاش ہے۔ ایسا مُسلمان جو صرف مُسلمان ہو
جس کا کوئی مسلک کوئی فرقہ نہ ہو۔
معزز علماء کرام ! اس تحریر میں بیان باتیں کس حد تک درست ہیں؟ نیز اس ” تشاء” اور “یشاء” کا جو ترجمہ کیا گیا ہے وہ کس حد تک درست ہے؟

جواب

اگر یہ فرضی تحریر نہیں ہے، حقیقت میں اسی طرح ہے، تو ہمارے نزدیک یہ تحریر گمراہی پر مبنی ہے، بلاشبہ یہ گمراہی کی ایک گہری شکل ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ جامعۃ الازہر والوں کے استدلالات، فرمودات، تشریحات اور سب کچھ محل نظر ہوتا ہے، وہ اچھے خاصے روشن خیال ہوتے ہیں، یہ خود ساختہ تشریحات ہیں، میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس پوری تحریر میں کوئی بات وزنی ہے، یشاء اور تشاء کی بحث محل نظر ہے، ماقبل و مابعد کے قرائن کہاں ساتھ دیتے ہیں، یہ غیر کے افکار سے متاثر ہونے کی بات ہے، اس لیے ایک بندے کو ایک عالم ربانی کے پاس بیٹھ کر دین اسلام کو سیکھنا چاہیے، پھر کسی کی تحریر پڑھنی چاہیے، جہاں تک مکاتب فکر کی بات ہے کہ مجھے ایسا مسلمان چاہیے جو کسی فرقے سے تعلق نہ رکھے، یہ بات اچھی تو لگتی ہے، لیکن اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیا آپ ایسے شخص کو مسلم کہنا چاہ رہے ہیں جو قبر کا پجاری ہو، صحابہ کرام کو گالیاں دیتا ہو، جو وحدت الوجود اور شہود کا قائل ہو، لہذا یہ سب خود ساختہ تشریحات ہیں جو کہ بڑی اچھی لگتی ہیں، لیکن ان کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہے، منھج وہ ہی ہے جو کتاب و سنت اور سلف کے فہم کے ساتھ منقول ہے، باقی خود ساختہ تشریحات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ