سوال (4527)

جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں میزان بینک والوں کے پروگرام کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

جی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حادثہ رونما ہوا ہے، لیکن یہ نہیں سمجھ آرہی کہ اس تقریب کے وہاں انعقاد کی مناسبت کیا تھی؟ ایک تو بذات خود ادارہ معتبر ہے، دوسرا اس میں حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ جیسے معتبر علماء کرام بھی موجود بلکہ اس تقریب میں شریک تھے… دیکھتے ہیں، اس حوالے سے کیا وضاحت آتی ہے..!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

اس میں افسوس کی بات نہیں ہے۔ میزان بینک والے اپنی تشہیر کے لیے آئے تھے لیکن مجلس میں اہل علم کے سوالات کے سامنے بے بس دکھائی دیے اور آخر میں اپنا لٹکا ہوا منہ ہی لے کر گئے تھے۔
شنید ہے کہ جامعہ سلفیہ کے ہمارے استاذ مولانا ندیم شہباز اور دکتور عتیق الرحمن ( شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ) اس پروگرام میں احتجاجا شریک نہیں ہوئے اور جو اساتذہ شریک ہوئے انھوں نے سوالات کے ذریعے میزان بینک کے نمائندگان کی خوب خبر لی ہے۔

فضیلۃ الباحث رانا عبد اللہ مرتضی حفظہ اللہ

جب اس پروگرام کی تشہیر کی گئی تو اس میں الفاظ کا انتخاب مناسب نہیں کیا گیا، جس سے غلط فہمیوں نے جنم لیا، یہ باتیں اگر اس پروگرام کی تشہیر کرتے ہوئے ساتھ کہہ دی جاتیں تو میرے خیال میں اس قسم کے اشکالات نہ پیدا ہوتے اور نہ وضاحتوں کی ضرورت رہتی…!!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

پیارے بھائی ہمارے ہاں اکثر دو انتہائیں پائی جاتی ہیں اور صحیح لوگ وہ ہوتے ہیں جو اعتدال سے کام لیتے ہیں یہاں اس پروگرام کے ہونے کے بعد بھی لوگوں میں دو انتہائیں میں نے دیکھی ہیں، ایک وہ جو ہمارے جید علما جو اس پروگرام میں شریک تھے ان سے ہی بدگمان ہو گئے انکے لئے یہ مشورہ ہے کہ وہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب رفع الملام عن ائمۃ الاعلام کا مطالعہ کریں کہ جس میں بڑے جید علما کی غلطیوں کا تاویلات سائغ دی گئی ہیں اور مشورہ دیا گیا ہے کہ ہمارا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ انکے بارے ہمشیہ اچھا گمان کریں البتہ انکی غلطی کی نشاندہی لازمی کریں چاہے وہ چاروں امام ہی کیوں نہ ہوں۔
دیکھیں ابن حجر رحمہ اللہ کا صفات میں عقیدہ تفویض کا تھا اھل سنت والا نہیں تھا لیکن ابن باز رحمہ اللہ نے فتح الباری کی تقریظ لکھی اسکو رد نہیں کیا ان پہ ملامت نہیں کی البتہ ساتھ لکھا ہے کہ فلاں فلاں جگہ پہ انکا عقیدہ درست نہیں اس میں انکی موافقت نہ کی جائے۔ واللہ اعلم
اور دیکھیں کچھ قرائن دیکھ کر اور منافقین کی باتوں میں آکر کچھ صحابہ نے امی عائشہ رضی اللہ عنھا بارے غلط گمان کر لیا تھا جس کے بارے قرآن نے پھر اصول بتا دیا کہ مومنوں کو کیا کرنا چاہئے تھا، پس اس معاملے میں بھی کچھ نے ہمارے علما کے بارے غلط گمان کر لیا اور کچھ نے علما کی بزرگی کو دیکھتے ہوئے اس عمل کو ہی جائز کہ دیا دیکھیں ہم اھل حدیث ہیں علامہ صاحب کے فرزند ہیں جو کہتے تھے کہ جو ابو حنیفہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے وہ اھل سنت تو کیا مسلمان بھی کیسے ہو سکتا ہے البتہ انکی غلطیوں کی کھل کر اصلاح کی اس پہ افسوس کیا جا سکتا ہے جیسا کہ شیخ خضر بھائی نے اچھے طریقے سے اس پہ افسوس کر دیا ہمیں بھی ایسے ہی کرنا چاہئے۔
اس کمنٹ میں پیارے بھائی نے لکھا ہے کہ افسوس کی کیا بات ہے وہ اپنی تشہیر کے لئے آئے تھے اور سوالات کے سامنے بے بس ہو گئے اور منہ لٹکا کر چلے گئے تو یہ پیارے بھائی کا اخلاص ہی ہے البتہ جیسے عمر رضی اللہ عنہ سے وفات رسول ﷺ پہ ایک انجانے میں غلطی ہو گئی تھی تو ہم سے بھی ہو سکتی ہے۔
پیارے بھائی اگر مرزائی کو جامعہ سلفی میں بلایا جائے اور ان سے سوالات جواب ہوں انکو لاجواب کر دیا جائے مگر جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا سوشل میڈیا پہ ان لاجواب سوالات کی جامعہ کی طرف سے کوئی تفصیل نہ آئے اور لاجواب کرنے کا کوئی دعوی نہ آئے بلکہ جو خبر آفیشیل ویب سائیٹ پہ آئی وہی آئے تو لوگ کیا سمجھیں گے کہ کیا ہوا۔
خیر یہ تو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ افسوس کرنا چاہئے یا نہیں لیکن اب سوچنا یہ ہے کہ کیا کرنا چاہئے۔
تو میرا خیال ہے کہ اپنے ذرائع سے جامعہ سے یہ فتوی دلوانا چاہئے اور انکی سائٹ پہ بھی یہ بتانا چاہئے کہ ہم نے انکا موقف جاننے کے لئے یہ پروگرام کیا تھا مگر وہ ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دے سکے اس لئے ہم انکے موقف کی کھل کر تردید کرتے ہیں، یا پھر یہ اعلان کرنا چاہئے کہ ہمارے فلاں فلاں علما انکے موقف سے متفق ہو گئے ہیں فلاں فلاں علما انکے موقف سے متفق نہیں ہوئے دونوں کے دلائل یہ ہیں کم از کم اتنا تو فتوی آنا لازم ہے۔
ورنہ گول مول اعلان کرنے سے ہمارا ہی نقصان ہو گا بینک والے تو اپنا فائدہ اٹھا لے جائیں گے۔
پس ہمیں سب کو یہ بھرپور زور دینا چاہئے کہ اس پروگرام کو جو بھی نتیجہ وہاں شرکت کرنے والے علما نے نکالا اسکا واضح اور کلیئر اعلان ضرور بضرور کیا جائے اس میں تاخیر نہ کی جائے اور کھل کر ویب سائیٹ پہ بھی کیا جائے ہم یہ نہیں کہتے کہ فلاں جواب دیا جائے جو شرکت کرنے والے بہتر سمجھتے ہیں وہی جواب دے دیں تاکہ اس کو وہ غلط استعمال نہ کر سکیں یا پھر اگر درست ہیں تو لوگ دوسرے بینکوں کی بجائے ان بینکوں میں منتقل ہو سکیں اور انکے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے کیونکہ تعاونوا علی البر کا حکم بھی تو ہمارے لئے ہی ہے کسی کو دوسری سودی بینکوں سے بچا کر ان جائز بینکوں کی طرف منتقل کرنا بھی تو ہمارا الوین فرض ہے ورنہ اگر یہ بھی سودی ہیں تو لوگوں کو یہ بتانا کہ تم دوسرے بینکوں میں رکھ لو وہ کم گناہ ہو گا کیونکہ وہ گناہ سمجھ کر کر رہے، ہو گے لیکن میزان میں نہ رکھو کیونکہ وہ گناہ نہ سمجھ کر کر رہے ہو گے جیسے شراب کو گناہ سمجھ کر پینے اور گناہ نہ سمجھ کر پینے میں فرق ہے۔

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

اس حوالے سے دو کام کرنے چاہییں، ایک تو پورا پروگرام جامعہ سلفیہ کو فیس بک اور یوٹیوب پر اپلوڈ کرنا چاہیے، امید ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا، ہمارے مشائخ نے سوال کیے ہونگے، مفتی نوید صاحب سے جوابات نہیں بنے ہونگے، اگر ہم نے ریکارڈنگ نہیں کی تھی، انھوں نے کی تھی تو یہ بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ وہ ایڈیٹنگ کرکے لائیں گے، اگر ہم نے ریکارڈنگ نہیں کی تھی تو جامعہ سلفیہ کے سینئر اساتذہ میں سے کوئی ایک مکمل توضیحی بیان دے، ہمارا ہدف کیا تھا، وہ آئے اور کیا ہوا تھا، دوسرا یہ ہے کہ مفتی نوید صاحب سے رابطہ کیا جائے کہ جو آپ نے ریکارڈنگ کی ہے تو وہ بغیر ایڈیٹنگ کے ہمیں بھیج دو اور اپنے فیس بک اور یوٹیوب پر اپلوڈ کر دو، ورنہ آپ اچھی نیت کے لیے نہیں آئے ہو۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ