جامعة الرشید کو سلام!

نماز کے بعدمسجد کے متولی نے مولوی صاحب سے درخواست کی کہ ان کے بیٹے کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے، دعا کی جائے کہ اسے اچھی نوکری مل جائے۔ مولوی صاحب نے ہاتھ اٹھائے اور بہ آواز بلند یوں دعا کی، یااللہ!، متولی صاحب کے بیٹے کو ایسی شاندار نوکری دے، جس کی تنخواہ میری تنخواہ جتنی ہو۔
اس پر متولی صاحب تلملا اٹھے کہ مولوی صاحب آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے؟ دیکھتے نہیں مہنگائی کا کیسا خوفناک دور ہے، آخر اتنی تنخواہ میں اس کا گزارہ کیسے ہوگا۔
سچی بات ہے کہ اس ملک میں اگر کسی طبقے پر ہر کسی کا احسان ہے اور اگر کسی طبقے کو ہر ایک کا خیال رکھنا ہے تو وہ ہمارے علمائے کرام اور مولوی حضرات ہیں۔ ان لوگوں کے کندھے ایسے مضبوط ہیں کہ مذہب کے نام پر عوام سے قربانیاں لے کر بنائی گئی ریاست نے مذہب کی خدمت کا سارا بوجھ ان کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ ان کی ضروریات اتنی محدود ہیں کہ یہ فرشتے ہوتے ہوتے رہ جاتے ہیں۔ نہ انھیں رہنے کیلئے گھر کے قابل سمجھا جاتا ہے،نہ ان کی اولاد کے یا ان کے بیمار ہونے کی توقع کی جاتی ہے،نہ ان کے گھر مہمانوں کی آمد متوقع رکھی جاتی ہے اور نہ ان کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات بجا سمجھے جاتے ہیں۔ انھیں مسجد و مدرسہ کہ ہمہ زندگی خدمات کے عوض چند ہزار ماہانہ دے کر ان کی یہ ڈیوٹی سمجھی جاتی ہے کہ یہ اللہ کو راضی بھی بھلے کرتے رہیں لیکن اس سے پہلے یہ اس کی چنیدہ مخلوق متولیان مسجد و مدرسہ کو ضرور راضی رکھیں۔ جس میں انتظامیہ میں موجود ہر فرد باس کا درجہ رکھتا ہے اور محلے کا ہر نمازی محتسب کا درجہ۔
میرے علم میں بہت ایسی کہانیاں ہیں کہ کس قدر تقوی و علم میں جلیل القدر لوگ پائی پائی کو ترس کے زندگی گزار گئے یا گزار رہے ہیں۔ بے چارے ساری زندگی روکھی سوکھی کھا کے اور بچوں کوکھلا کے بھی مرتے ہیں تو اولاد کو اڑھائی مرلہ مکان تک نہیں دے کے جا سکتے۔ ہمارے ہاں چلن یہ ہے کہ کروڑوں اور اربوں روپے بلڈنگز پر جھونک دئیے جاتے ہیں، لاکھوں روپے مسجد کے مینار اور کانفرنسز پر لگا دئیے جاتے ہیں مگر دین کے لئے زندگیاں وقف کر دینے والوں کی راحت کیلئے خرچ کرنا کفر عظیم سمجھا جاتا ہے۔ ادھر دینی فلاحی تنظیمیں اربوں اور کروڑوں اکٹھے کرکے دور دراز علاقوں میں، ان علاقوں کے اپنے رسم و رواج اور لائف سٹائل سے بھی بڑھ کے تعمیرات کر ڈالیں گی مگر پڑوس میں عام غربا ہی نہیں زندگیاں دین کیلئے کھپا دینے والے جید علمائے کرام بھی ترستے اور دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔ حالانکہ زکوہ و صدقات کے خرچ کا پہلا اصول یہ ہے کہ یہ جہاں کے اغنیا سے لی جائے، وہیں کے ضرورتمندوں میں تقسیم کی جائے۔
خیر یہ داستان بڑی تلخ بھی ہے ،دراز بھی ہے اور انسانیت سوز بھی۔ ایسے میں جامعہ الرشید نے ایک ایسی مثال قائم کی ہے، جس نے برسوں سے طاری بے حسی کے اس طلسم کو توڑ کاٹ کے پرے پھینک دیا ہے۔ سنتے ہیں کہ انھوں نے اپنے تیس سینئر اساتذہ کو ذاتی پلاٹوں سے نواز دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جامعہ نے اپنے 30 سینئر اساتذہ کرام کو 65، 65 لاکھ مالیت کے پلاٹ گفٹ کیے۔(جن کی سروس 20 سے 32 سال تک تھی)تین اساتذہ نے استحقاق کے باوجود اپنے پلاٹ دوسرے اساتذہ کرام کو گفٹ کردئیے۔
کوئی جان نہیں سکتا کہ یہ کس قدر روشن ضمیری اور دین و انسانیت کی خدمت کا کام ہے۔ اللہ کرے یہ کام بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو۔ اور لوگ بھی اس طرف توجہ کریں اور کائنات کی اس سب سے اہم مگر فراموش شدہ عظمت کی خدمت کی طرف توجہ کر سکیں۔ جامعہ الرشید کو بہرحال اس پہل پر دلی مبارکباد۔

#یوسف_سراج

یہ بھی پڑھیں: حق چار یار کے ماننے والے منافق؟