سوال (2590)
کیا جنازے موقع پر درس دینا صحیح ہے؟
جواب
جنازے کے موقع پر درس وتدریس اور تقریریں کرنا”
اس موضوع پر ہمارے اکابر شیوخ علماء کرام کا اظہار خیال
1: قاری ایوب چنیوٹی رحمه الله کے جنازے پر
اہلحدیث سمیت مختلف مسالک کے علماء باری باری مرحوم کی تعریف پر چند منٹ لگا رہے تھے۔ جب جنازہ پڑھانے شیخ الحدیث مولانا رفیق اثری رحمه الله تشریف لائے تو آتے ہی کہا کہ یہ مشرکین کا طریقہ تھا کہ میت سامنے رکھ کر اس کی تعریفیں شروع کر دیا کرتے تھے۔ اس سے بچنا چاہیے، یہ مسنون طریقہ نہیں ہے۔
2: حافظ صلاح الدین یوسف رحمه الله کے جنازہ کے موقع پر ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب کو تعزیتی کلمات کہنے کیلئے مدعو کیا گیا تو پہلی صف میں بیٹھے شیخ الحدیث مفتی ثناء اللہ مدنی رحمه الله نے کہا کہ جنازے پہ وعظ کرنا خلاف سنت عمل ہے۔ ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب وہیں بیٹھ گئے، اور وعظ نہیں کیا۔
3: مولانا عبیداللہ عفیف رحمه الله کے جنازے کے موقع پر شیخ ارشاد الحق اثری حفظه الله کو کلماتِ تحسین کہنے کیلیے دعوت دی گئی تو یہ کہہ کر انکار فرما دیا: ”یہ عمل سنت سے ثابت نہیں ہے۔“
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صحابہ بھی میت کی تعریف کرتے تھے یا اس موقع پر وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ یہ دین کے صحیح فہم سے دور ہونے کا نتیجہ ہے۔ صحابہ کرام بہت زیادہ ذکر کرنے والی ہستیاں تھیں ، مگر جب انہوں نے کچھ لوگوں کو حلقوں میں بیٹھ کر مخصوص انداز سے اجتماعی ذکر کرتے ہوئے دیکھا تو انتہائی غصے کا اظہار فرمایا۔ اس لیے وعظ یا میت کی تعریف میں حرج نہیں ہے،
لیکن رسم و رواج کی طرز پر میت سامنے رکھ کر بڑے بڑے لوگوں سے اس کی تعریفیں کروانا اور جنازے جیسے پُر ہول اور خشوع و تضرع کے متقاضی مشہد کو جلسہ گاہ بنا لینا مذموم اور نامناسب عمل ہے۔ اسی لیے کبار اور سنجیدہ اہلِ علم ہمیشہ اس سے منع کرتے رہے ہیں۔
4: حافظ محمد یوسف گکھڑوی رحمه الله کے جنازے میں
بعض علماء کی جانب سے رسمی خراجِ تحسین اور تعریفی کلمات کا سلسلہ شروع تھا۔ امام العصر محدث حافظ محمد گوندلوی رحمه الله شدید غصے میں فرمانے لگے! یہ سلسلہ بند کرو، کیوں اللہ کے غیض و غضب کو دعوت دیتے ہو؟! یہ وقت تقاریر کا نہیں، عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کا ہے۔
5: مولانا عبد الحميد ازہر رحمه الله نے وفات سے قبل یہ وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازے پر داد و تحسین کا پروگرام مت کیجیے گا۔ اسی وصیت کے باعث ان کے جنازے میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔
6: شیخ الحدیث جامعہ کمالیہ مولانا محمد یوسف صاحب آف راجو وال کے جنازے کے موقع پر آپ کے بیٹے نے آپ کا لکھا ہوا وصیت نامہ پڑھ کر سنایا کہ میرے جنازے پر تعریفیں اور تقریریں نہ کی جائیں، کیونکہ یہ صریحاً خلاف سنت بلکہ بدعت عمل ہے۔
7: حافظ عبدالسلام بن محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی وصیت کی تھی کہ میرے جنازے پہ مروجہ وعظ و نصیحت نہ کی جائے سو ایسا نہیں کیا گیا تھا۔
نماز جنازہ کے موقعے کو جلسہ عام بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
صرف قبرستان میں تدفین سے پہلے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا احوال قبر کو بیان کرنا ثابت ہے، سو اس موقع پر وقت ہو تو اس عمل کو دہرایا جا سکتا ہے، یہ مفصل حدیث مصنف ابن أبی شیبہ ،مسند أحمد بن حنبل الإيمان لابن منده وغیرہ میں صحیح سند سے موجود ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ اﻟﻤﻨﻬﺎﻝ، ﻋﻦ ﺯاﺫاﻥ، ﻋﻦ اﻟﺒﺮاء، ﻗﺎﻝ: ﺧﺮﺟﻨﺎ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﺟﻨﺎﺯﺓ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ اﻷﻧﺼﺎﺭ ﻓﺎﻧﺘﻬﻴﻨﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﺒﺮ، ﻭﻟﻤﺎ ﻳﻠﺤﺪ ﻓﺠﻠﺲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﺟﻠﺴﻨﺎ ﺣﻮﻟﻪ، ﻛﺄﻧﻤﺎ ﻋﻠﻰ ﺭءﻭﺳﻨﺎ اﻟﻄﻴﺮ، ﻭﻓﻲ ﻳﺪﻩ ﻋﻮﺩ ﻳﻨﻜﺖ ﺑﻪ ﻓﺮﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: اﺳﺘﻌﻴﺬﻭا ﺑﺎﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﻋﺬاﺏ اﻟﻘﺒﺮ، ﺛﻼﺙ ﻣﺮاﺕ، ﺃﻭ ﻣﺮﺗﻴﻦ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ” ﺇﻥ اﻟﻌﺒﺪ اﻟﻤﺆﻣﻦ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻓﻲ اﻧﻘﻄﺎﻉ ﻣﻦ اﻟﺪﻧﻴﺎ، ﻭﺇﻗﺒﺎﻝ ﻣﻦ اﻵﺧﺮﺓ، ﻧﺰﻝ ﺇﻟﻴﻪ ﻣﻦ اﻟﺴﻤﺎء ﻣﻼﺋﻜﺔ ﺑﻴﺾ اﻟﻮﺟﻮﻩ، ﻛﺄﻥ ﻭﺟﻮﻫﻬﻢ اﻟﺸﻤﺲ، ﺣﺘﻰ ﻳﺠﻠﺴﻮﻥ ﻣﻨﻪ، ﻣﺪ اﻟﺒﺼﺮ ﻣﻌﻬﻢ ﻛﻔﻦ ﻣﻦ ﺃﻛﻔﺎﻥ اﻟﺠﻨﺔ، ﻭﺣﻨﻮﻁ ﻣﻦ ﺣﻨﻮﻁ اﻟﺠﻨﺔ، ﺛﻢ ﻳﺠﻲء ﻣﻠﻚ اﻟﻤﻮﺕ ﻓﻴﻘﻌﺪ ﻋﻨﺪ ﺭﺃﺳﻪ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺃﻳﺘﻬﺎ اﻟﻨﻔﺲ اﻟﻄﻴﺒﺔ اﺧﺮﺟﻲ ﺇﻟﻰ ﻣﻐﻔﺮﺓ ﻣﻦ اﻟﻠﻪ ﻭﺭﺿﻮاﻥ، ﻓﺘﺨﺮﺝ ﺗﺴﻴﻞ ﻛﻤﺎ ﺗﺴﻴﻞ اﻟﻘﻄﺮﺓ ﻣﻦ ﻓﻲ اﻟﺴﻘﺎء، ﻓﺈﺫا ﺃﺧﺬﻭﻫﺎ ﻟﻢ ﻳﺪﻋﻮﻫﺎ ﻓﻲ ﻳﺪﻩ ﻃﺮﻓﺔ ﻋﻴﻦ، ﺣﺘﻰ ﻳﺄﺧﺬﻭﻫﺎ ﻓﻴﺠﻌﻠﻮﻫﺎ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ اﻟﻜﻔﻦ، ﻭﺫﻟﻚ اﻟﺤﻨﻮﻁ، ﻓﻴﺨﺮﺝ ﻣﻨﻬﺎ ﻛﺄﻃﻴﺐ ﻧﻔﺨﺔ ﻣﺴﻚ، ﻭﺟﺪﺕ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻪ اﻷﺭﺽ، ﻓﻴﺼﻌﺪﻭﻥ ﺑﻬﺎ ﻓﻼ ﻳﻤﺮﻭﻥ ﺑﻬﺎ ﻋﻠﻰ ﻣﻠﻚ ﻣﻦ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ، ﺇﻻ ﻗﺎﻟﻮا: ﻣﺎ ﻫﺬا اﻟﺮﻭﺡ اﻟﻄﻴﺐ؟ ﻓﻴﻘﻮﻟﻮﻥ: ﻫﺬا ﻓﻼﻥ ﺑﻦ ﻓﻼﻥ ﺑﺄﺣﺴﻦ ﺃﺳﻤﺎﺋﻪ اﻟﺘﻲ ﻛﺎﻥ ﻳﺴﻤﻰ ﺑﻬﺎ ﻓﻲ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﺣﺘﻰ ﻳﻨﺘﻬﻮﻥ ﺑﻬﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﺴﻤﺎء اﻟﺪﻧﻴﺎ ﻓﻴﺴﺘﻔﺘﺢ ﻓﻴﻔﺘﺢ ﻟﻬﻢ ﻓﻴﺴﺘﻘﺒﻠﻪ ﻣﻦ ﻛﻞ ﺳﻤﺎء ﻣﻘﺮﺑﻮﻫﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﺴﻤﺎء اﻟﺘﻲ ﺗﻠﻴﻬﺎ ﺣﺘﻰ ﻳﻨﺘﻬﻲ ﺑﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﺴﻤﺎء اﻟﺴﺎﺑﻌﺔ ﻗﺎﻝ: ﻓﻴﻘﻮﻝ اﻟﻠﻪ: اﻛﺘﺒﻮا ﻛﺘﺎﺏ ﻋﺒﺪﻱ ﻓﻲ ﻋﻠﻴﻴﻦ ﻓﻲ اﻟﺴﻤﺎء اﻟﺮاﺑﻌﺔ، ﻭﺃﻋﻴﺪﻭﻩ ﺇﻟﻰ اﻷﺭﺽ، ﻓﺈﻧﻲ ﻣﻨﻬﺎ ﺧﻠﻘﺘﻬﻢ، ﻭﻓﻴﻬﺎ ﺃﻋﻴﺪﻫﻢ، ﻭﻣﻨﻬﺎ ﺃﺧﺮﺟﻬﻢ ﺗﺎﺭﺓ ﺃﺧﺮﻯ، ﻓﺘﻌﺎﺩ ﺭﻭﺣﻪ ﻓﻲ ﺟﺴﺪﻩ، ﻭﻳﺄﺗﻴﻪ ﻣﻠﻜﺎﻥ ﻓﻴﺠﻠﺴﺎﻧﻪ ﻓﻴﻘﻮﻻﻥ ﻟﻪ: ﻣﻦ ﺭﺑﻚ؟ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺭﺑﻲ اﻟﻠﻪ، ﻓﻴﻘﻮﻻﻥ ﻟﻪ: ﻣﺎ ﺩﻳﻨﻚ؟ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺩﻳﻨﻲ اﻹﺳﻼﻡ، ﻓﻴﻘﻮﻻﻥ ﻟﻪ: ﻣﺎ ﻫﺬا اﻟﺮﺟﻞ اﻟﺬﻱ ﺑﻌﺚ ﻓﻴﻜﻢ؟ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻫﻮ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻴﻘﻮﻻﻥ: ﻣﺎ ﻋﻤﻠﻚ؟ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻗﺮﺃﺕ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻠﻪ، ﻭﺁﻣﻨﺖ ﺑﻪ، ﻭﺻﺪﻗﺖ ﺑﻪ، ﻓﻴﻨﺎﺩﻱ ﻣﻨﺎﺩ ﻣﻦ اﻟﺴﻤﺎء ﺃﻥ ﺻﺪﻕ ﻋﺒﺪﻱ ﻓﺄﻓﺮﺷﻮﻩ ﻣﻦ اﻟﺠﻨﺔ، ﻭﺃﻟﺒﺴﻮﻩ ﻣﻦ اﻟﺠﻨﺔ، ﻭاﻓﺘﺤﻮا ﻟﻪ ﺑﺎﺑﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﺠﻨﺔ ﻓﻴﺄﺗﻴﻪ ﻣﻦ ﻃﻴﺒﻬﺎ، ﻭﺭﻭﺣﻬﺎ، ﻭﻳﻔﺴﺢ ﻟﻪ ﻓﻲ ﻗﺒﺮﻩ ﻣﺪ ﺑﺼﺮﻩ، ﻭﻳﺄﺗﻴﻪ ﺭﺟﻞ ﺣﺴﻦ اﻟﻮﺟﻪ ﺣﺴﻦ اﻟﺜﻴﺎﺏ ﻃﻴﺐ اﻟﺮﻳﺢ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺃﺑﺸﺮ ﺑﺎﻟﺬﻱ ﻳﺴﺮﻙ ﻫﺬا ﻳﻮﻣﻚ اﻟﺬﻱ ﻛﻨﺖ ﺗﻮﻋﺪ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻭﻣﻦ ﺃﻧﺖ؟ ﻓﻮﺟﻬﻚ اﻟﻮﺟﻪ اﻟﺬﻱ ﻳﺠﻲء ﺑﺎﻟﺨﻴﺮ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺃﻧﺎ ﻋﻤﻠﻚ اﻟﺼﺎﻟﺢ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺭﺏ ﺃﻗﻢ اﻟﺴﺎﻋﺔ، ﺃﻗﻢ اﻟﺴﺎﻋﺔ، ﺣﺘﻰ ﺃﺭﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺃﻫﻠﻲ، ﻭﻣﺎﻟﻲ، ﻭﺇﻥ اﻟﻌﺒﺪ اﻟﻜﺎﻓﺮ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻓﻲ اﻧﻘﻄﺎﻉ ﻣﻦ اﻟﺪﻧﻴﺎ، ﻭﺇﻗﺒﺎﻝ ﻣﻦ اﻵﺧﺮﺓ، ﻧﺰﻝ ﺇﻟﻴﻪ ﻣﻦ اﻟﺴﻤﺎء ﻣﻼﺋﻜﺔ ﺳﻮﺩ اﻟﻮﺟﻮﻩ ﻣﻌﻬﻢ اﻟﻤﺴﻮﺡ، ﺣﺘﻰ ﻳﺠﻠﺴﻮﻥ ﻣﻨﻪ ﻣﺪ اﻟﺒﺼﺮ، ﺛﻢ ﻳﺠﻲء ﻣﻠﻚ اﻟﻤﻮﺕ ﺣﺘﻰ ﻳﺠﻠﺲ ﻋﻨﺪ ﺭﺃﺳﻪ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻳﺎ ﺃﻳﺘﻬﺎ اﻟﻨﻔﺲ اﻟﺨﺒﻴﺜﺔ اﺧﺮﺟﻲ ﺇﻟﻰ ﺳﺨﻂ اﻟﻠﻪ ﻭﻏﻀﺒﻪ ﻗﺎﻝ: ﻓﺘﻔﺮﻕ ﻓﻲ ﺟﺴﺪﻩ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺘﺨﺮﺝ ﻓﻴﻨﻘﻄﻊ ﻣﻌﻬﺎ اﻟﻌﺮﻭﻕ ﻭاﻟﻌﺼﺐ ﻛﻤﺎ ﺗﻨﺰﻉ اﻟﺴﻔﻮﺩ ﻣﻦ اﻟﺼﻮﻑ اﻟﻤﺒﻠﻮﻝ، ﻓﻴﺄﺧﺬﻭﻫﺎ، ﻓﺈﺫا ﺃﺧﺬﻭﻫﺎ ﻟﻢ ﻳﺪﻋﻮﻫﺎ ﻓﻲ ﻳﺪﻩ، ﻃﺮﻓﺔ ﻋﻴﻦ ﺣﺘﻰ ﻳﺄﺧﺬﻭﻫﺎ، ﻓﻴﺠﻌﻠﻮﻫﺎ ﻓﻲ ﺗﻠﻚ اﻟﻤﺴﻮﺡ، ﻓﻴﺨﺮﺝ ﻣﻨﻬﺎ ﻛﺄﻧﺘﻦ ﺭﻳﺢ ﺟﻴﻔﺔ، ﻭﺟﺪﺕ ﻋﻠﻰ ﻇﻬﺮ اﻷﺭﺽ ﻓﻴﺼﻌﺪﻭﻥ ﺑﻬﺎ، ﻓﻼ ﻳﻤﺮﻭﻥ ﺑﻬﺎ ﻋﻠﻰ ﻣﻠﻚ ﻣﻦ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﺇﻻ ﻗﺎﻟﻮا: ﻣﺎ ﻫﺬا اﻟﺮﻭﺡ اﻟﺨﺒﻴﺚ؟ ﻓﻴﻘﻮﻟﻮﻥ: ﻓﻼﻥ ﺑﻦ ﻓﻼﻥ ﺑﺄﻗﺒﺢ ﺃﺳﻤﺎﺋﻪ اﻟﺘﻲ ﻛﺎﻥ ﻳﺴﻤﻰ ﺑﻬﺎ ﻓﻲ اﻟﺪﻧﻴﺎ، ﺣﺘﻰ ﻳﻨﺘﻬﻲ ﺑﻬﺎ ﺇﻟﻰ ﺳﻤﺎء اﻟﺪﻧﻴﺎ ﻓﻴﺴﺘﻔﺘﺤﻮﻥ، ﻓﻼ ﻳﻔﺘﺢ ﻟﻪ، ﺛﻢ ﻗﺮﺃ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ {ﻻ ﺗﻔﺘﺢ ﻟﻬﻢ ﺃﺑﻮاﺏ اﻟﺴﻤﺎء ﻭﻻ ﻳﺪﺧﻠﻮﻥ اﻟﺠﻨﺔ ﺣﺘﻰ ﻳﻠﺞ اﻟﺠﻤﻞ ﻓﻲ ﺳﻢ اﻟﺨﻴﺎﻁ} [ اﻷﻋﺮاﻑ: 40]
ﻗﺎﻝ: ﻓﻴﻘﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ: اﻛﺘﺒﻮا ﻛﺘﺎﺏ ﻋﺒﺪﻱ ﻓﻲ ﺳﺠﻴﻦ ﻓﻲ اﻷﺭﺽ اﻟﺴﻔﻠﻰ، ﻭﺃﻋﻴﺪﻭﻩ ﺇﻟﻰ اﻷﺭﺽ، ﻓﺈﻧﻲ ﻣﻨﻬﺎ ﺧﻠﻘﺘﻬﻢ، ﻭﻓﻴﻬﺎ ﺃﻋﻴﺪﻫﻢ، ﻭﻣﻨﻬﺎ ﺃﺧﺮﺟﻬﻢ ﺗﺎﺭﺓ ﺃﺧﺮﻯ ” ﻗﺎﻝ: ﻓﺘﻄﺮﺡ ﺭﻭﺣﻪ ﻃﺮﺣﺎ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻢ ﻗﺮﺃ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ {ﻭﻣﻦ ﻳﺸﺮﻙ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﻓﻜﺄﻧﻤﺎ ﺧﺮ ﻣﻦ اﻟﺴﻤﺎء ﻓﺘﺨﻄﻔﻪ اﻟﻄﻴﺮ ﺃﻭ ﺗﻬﻮﻱ ﺑﻪ اﻟﺮﻳﺢ ﻓﻲ ﻣﻜﺎﻥ ﺳﺤﻴﻖ}
[ اﻟﺤﺞ: 31]
ﻗﺎﻝ: ﻓﺘﻌﺎﺩ ﺭﻭﺣﻪ ﻓﻲ ﺟﺴﺪﻩ، ﻭﻳﺄﺗﻴﻪ اﻟﻤﻠﻜﺎﻥ ﻓﻴﺠﻠﺴﺎﻧﻪ، ﻓﻴﻘﻮﻻﻥ ﻟﻪ: ﻣﻦ ﺭﺑﻚ؟ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻫﺎﻫﺎ ﻻ ﺃﺩﺭﻱ، ﻓﻴﻘﻮﻻﻥ ﻟﻪ: ﻭﻣﺎ ﺩﻳﻨﻚ؟، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻫﺎﻫﺎ ﻻ ﺃﺩﺭﻱ ﻗﺎﻝ: ﻓﻴﻨﺎﺩﻱ ﻣﻨﺎﺩ ﻣﻦ اﻟﺴﻤﺎء ﺃﻓﺮﺷﻮا ﻟﻪ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ، ﻭﺃﻟﺒﺴﻮﻩ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ، ﻭاﻓﺘﺤﻮا ﻟﻪ ﺑﺎﺑﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﻨﺎﺭ، ﻗﺎﻝ: ﻓﻴﺄﺗﻴﻪ ﻣﻦ ﺣﺮﻫﺎ ﻭﺳﻤﻮﻣﻬﺎ، ﻭﻳﻀﻴﻖ ﻋﻠﻴﻪ ﻗﺒﺮﻩ، ﺣﺘﻰ ﺗﺨﺘﻠﻒ ﻋﻠﻴﻪ ﺃﺿﻼﻋﻪ، ﻭﻳﺄﺗﻴﻪ ﺭﺟﻞ ﻗﺒﻴﺢ اﻟﻮﺟﻪ، ﻭﻗﺒﻴﺢ اﻟﺜﻴﺎﺏ، ﻣﻨﺘﻦ اﻟﺮﻳﺢ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺃﺑﺸﺮ ﺑﺎﻟﺬﻱ ﻳﺴﻮءﻙ ﻫﺬا ﻳﻮﻣﻚ اﻟﺬﻱ ﻛﻨﺖ ﺗﻮﻋﺪ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻣﻦ ﺃﻧﺖ؟ ﻓﻮﺟﻬﻚ اﻟﻮﺟﻪ اﻟﺬﻱ ﻳﺠﻲء ﺑﺎﻟﺸﺮ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺃﻧﺎ ﻋﻤﻠﻚ اﻟﺨﺒﻴﺚ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺭﺏ ﻻ ﺗﻘﻢ اﻟﺴﺎﻋﺔ، ﺭﺏ ﻻ ﺗﻘﻢ اﻟﺴﺎﻋﺔ
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻧﻤﻴﺮ، ﺛﻨﺎ اﻷﻋﻤﺶ، ﺛﻨﺎ اﻟﻤﻨﻬﺎﻝ، ﻋﻦ ﺯاﺫاﻥ، ﻋﻦ اﻟﺒﺮاء، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻨﺤﻮﻩ ﻭﺯاﺩ ﻓﻴﻪ ﻭاﻟﺴﺠﻴﻦ ﺗﺤﺖ اﻷﺭﺽ اﻟﺴﻔﻠﻰ
[مصنف ابن أبى شيبة : 12059 ،12060 دوسرا نسخہ : 12432 ،12433 مسند أحمد: 18534 ،الايمان لابن مندة : 1064 ، 2/ 962 صحيح، المعجم الکبیر/ الأحادیث الطوال، السنة لعبد الله بن أحمد : 1314 ،1315 میں دوسرے طریق میں امام اعمش کے سماع کی صراحت موجود ہے
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل:
شیخ محترم اس کو ہم “بدعت” کہہ سکتے ہیں۔؟
جواب:
میرے خیال میں ہر کام کو بدعت کہنا تو ضروری نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ