سوال
ہمارے خاندان میں ایک مسئلہ شدت سے اُبھر رہا ہے، برائے مہربانی اس بارے میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔ جب کسی کی نمازِ جنازہ ہوتی ہے تو بعض لوگ اس سے پہلے اذان دیتے ہیں، اور بعض لوگ دفن کے بعد قبر کے پاس اذان دیتے ہیں۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرما دیں، کیونکہ یہ مسئلہ کافی پھیلتا جا رہا ہے۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
شریعت میں اذان پانچ فرض نمازوں کے لیے مشروع ہے، جیسا کہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح طور پر ثابت ہے۔
ابتدا میں جب فرض نمازوں کا حکم نازل ہوا تو لوگ اندازے سے وقت کا تعیّن کر کے نماز کے لیے جمع ہو جاتے تھے، لیکن بعد میں صحابہ کرامؓ کی مشاورت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ نماز کے اوقات کی اطلاع کے لیے کوئی علامت مقرر کی جائے۔ اس ضمن میں مختلف آراء پیش کی گئیں:
کسی نے کہا آگ جلائی جائے، کسی نے ناقوس بجانے کا مشورہ دیا، کسی نے نَقارہ بجانے کا مشورہ دیا۔
اسی دوران ایک صحابی سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب میں اذان کے الفاظ سکھلائے گئے۔
جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ خواب سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تصدیق فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ”. [سنن أبی داؤد: 499]
’’یہ ان شاء اللہ سچا خواب ہے‘‘۔
اور ان کلماتِ اذان کو نماز کے لیے مشروع قرار دے دیا گیا۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اذان صرف فرض نمازوں کے لیے مشروع ہے۔
جہاں تک نمازِ جنازہ سے پہلے اذان دینے کا تعلق ہے، تو یہ عمل شریعت میں کہیں بھی ثابت نہیں۔ نہ کسی صحیح حدیث میں اس کا ذکر ہے، نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے، نہ تابعین کے دور میں اس کی کوئی اصل ہے۔
نمازِ جنازہ میں نہ رکوع ہے، نہ سجدہ، نہ اذان اور نہ ہی اقامت ہے۔ یہ محض ایک دعائیہ نماز ہے، جس میں میت کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔
لہٰذا اس کے ساتھ اذان کو جوڑ دینا نہ صرف غیر ثابت شدہ عمل ہے بلکہ دین میں اضافہ و بدعت ہے جو کہ شرعاً حرام ہے۔
اسی طرح دفن کے بعد قبر کے پاس اذان دینا بھی غیر شرعی عمل ہے۔ اس بارے میں بھی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے، نہ صحابہ سے، نہ ائمۂ سلف سے اس کے متعلق کچھ ثابت ہے۔
اگر یہ عمل دین کا حصہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی قبروں پر اذان دلواتے، یا صحابہ ایک دوسرے کے دفن کے بعد یہ عمل کرتے۔ مگر کسی ایک بھی روایت میں اسکا کوئی ثبوت یا مثال نہیں ملتی۔
البتہ دفن کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم ضرور دی ہے کہ میت کے لیے مغفرت کی دعا کی جائے، چنانچہ فرمایا:
“اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ”. [سنن أبی داؤد: 3221]
’’اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور ثابت قدمی کی دعا کرو بیشک اب اس سے سوال کیا جائے گا‘‘۔
دفن کے بعد یہ سنت طریقہ ہے، اس پر عمل کرنا چاہیے۔
لہٰذا جنازے سے پہلے یا قبر پر اذان دینا، اہلِ بدعت کا شعار ہے، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسکا ثبوت ہے نہ صحابہ و سلف صالحین نے ایسا کوئی عمل کیا۔
یہ دین میں اضافہ اور بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”. [صحیح مسلم: 867]
’’ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ