سوال
موجودہ صورتِ حال میں، کیا اسلام کی رُو سے پاکستان بھارت کے ڈیم تباہ کر سکتا ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اسلام اور کفر کے درمیان جب جنگ کی صورت بن جائے، تو ایسی جنگ میں دشمن کی عسکری طاقت، معیشت، وسائل اور سہولیات کو نشانہ بنانا شرعاً جائز ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کا محاصرہ کیا تو انکا “بویرہ” نامی جگہ پر کھجوروں کا ایک خوبصورت باغ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ضرورتوں اور حکمتوں کے پیشِ نظر اس میں سے بعض درختوں کو کاٹنے کا اور بعض کو جلانے کا حکم دیا اور بعض اسی طرح رہنے دیے، جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
“حَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ ، فَنَزَلَتْ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخۡزِىَ الۡفٰسِقِيۡنَ. سورة الحشر: 05”. [صحیح البخاری: 4031]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی کھجوروں کے باغات جلوا دیے تھے اور ان کے درختوں کو کٹوا دیا تھا۔ یہ باغات مقام بویرہ میں تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ”جو درخت تم نے کاٹ دیے ہیں یا جنہیں تم نے چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنی جڑوں پر کھڑے رہیں تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے اور تاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے‘‘۔
اس سے ثابت ہوا کہ جنگ میں دشمن کو کمزور کرنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرنا، دشمن کے وسائل پر ضرب لگانا، انکی معیشت وغیرہ کو تباہ کرنا جائز ہے، بلکہ جنگ کا عین مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔
اسی طرح غزوہ بدر کے موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کی معاشی طاقت کو ختم کرنے کے لیے نکلے تھے، سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عِيرَ قُرَيْشٍ”. [صحیح البخاری: 3951]
’’(غزوہ بدر کے موقع پر)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے قافلے کے ارادے سے نکلے تھے‘‘۔
جہاں تک ڈیم تباہ کرنے کا تعلق ہے، تو اگر صورتحال ایسی ہو کہ دشمن (بھارت) پاکستان کے ڈیم تباہ کرتا ہے، تو کیا پاکستان کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا چاہیے؟ ظاہر ہے کہ اگر دشمن کو کھلی چھوٹ دے دی جائے تو وہ ہر میدان میں تباہی مچائے گا۔ اس لیے جنگ کے دوران، خاص طور پر جب جنگ اسلام اور کفر کے مابین ہو، تو دشمن ملک کی وہ تمام چیزیں جو عسکری و معاشی لحاظ سے اس کی مددگار ہوں، مثلاً: اسلحہ کے ذخائر، فوجی تنصیبات، اور ایسے انفراسٹرکچر (جیسے ڈیم وغیرہ) جن سے دشمن کو طاقت حاصل ہوتی ہو یا ان سے وہ آپ کو نقصان پہنچاسکتے ہوں، ان کو ختم اور تباہ کرنا جائز ہوتا ہے۔
البتہ اس میں عام شہریوں کی بلا وجہ قتل و غارت مقصود نہ ہو، کیونکہ جنگ کا اصل مقصد دشمن کو کمزور کرنا، انکو خوف دلانا اور انکے دلوں میں رعب ڈالنا ہوتا ہے۔
لہذا اسلام کی رُو سے جب دشمن کافر ملک سے اعلانِ جنگ ہو جائے، اور وہ دشمن ملک پاکستان پر حملہ آور ہو یا اس کے وسائل کو نشانہ بنائے، تو ایسے میں پاکستان کو بھی شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ دفاع کے لیے دشمن ملک کی فوجی تنصیبات، اسلحہ، معیشت وغیرہ اور ایسے تمام وسائل و ذرائع جن سے وہ پاکستان کو نقصان پہنچاسکتا ہے، ان کو نشانہ بناکر تباہ کردے، تاکہ دشمن کمزور و ذلیل ہو اور انکے دلوں میں خوف پیدا ہو۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ