سوال

ایک شخص کسی کو 50 ہزار کا جانور  لے کر دیتا ہے، اس نیت پر کہ آپ اس کی پرورش کریں، کچھ عرصے بعد ہم اس کو بیچ دیں گے وہ جتنے کا بھی بکے گا، اس میں سے 50 ہزار نکال کر بقیہ رقم یعنی منافع کو ہم آپس میں آدھا آدھا کر لیں گے۔ فرض کریں جانور ایک لاکھ کا بکتا ہے، تو اس میں جانور خرید کر دینے والے کو 75 ہزار ملے گا اور جانور پالنے والے کو 25 ہزار۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہ کاروبار میں شراکت کی ہی ایک صورت ہے کہ ایک شخص سرمایہ لگا رہا ہے اور دوسرے کی محنت ہے جبکہ نفع میں دونوں برابر یا طے شدہ نسبت کے حساب سے شریک ہوں گے۔ یہ جائز ہے۔

البتہ شراکت میں نفع و نقصان ہر دو صورتوں میں شراکت ضروری ہوتی ہے، یعنی اگر نفع ہوگا تو دونوں کو ملے گا، اسی طرح اگر نقصان ہوا تو وہ بھی دونوں برداشت کریں گے، یعنی سرمایہ لگانے والے کا سرمایہ ضائع ہو گا، جبکہ محنت والے کی محنت جائے گی۔

اگر صرف نفع کی شرط لگا دی جائے اور نقصان کی صورت میں سرمائے والا اپنے راس المال کا مطالبہ کرے یا محنت والا اپنی مزدوری کا مطالبہ کرے تو یہ جائز نہیں ہو گا۔

بعض علمائے کرام اس کو ’شراکت’ کی بجائے ’اجارہ’ میں شمار کرتے ہوئے ’اجرت’ مجہول ہونے کے سبب ناجائز قرار دیتے ہیں لیکن راجح یہی ہے کہ یہ مشارکت ہے نہ کہ اجارہ، جیسا کہ ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہما اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔

تفصیل [أعلام الموقعين 4/ 433-432] میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ