سوال
کسی کو بکری وغیرہ خرید کر دینا کہ تم اس کی پرورش کرو اور یہ جانور اور اس سے ہونے والے بچوں میں ہم دونوں برابر کے شریک ہوں گے.
کیا یہ کاروبار جائز ہے؟ احناف اس کو درست نہیں مانتے، برائے مہربانی دلائل کے ساتھ جائز یا ناجائز کی وضاحت فرما دیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اس میں واقعتا اہل علم کا اختلاف ہے، اورصرف احناف ہی نہیں، بلکہ جمہور اہل علم کے نزدیک کاروبار کی یہ صورت جائز نہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ ’اجارہ‘ کے قبیل سے ہے، جس میں اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ جائز نہیں۔
البتہ متاخرینِ احناف نے عموم بلوی کے تحت اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ۔ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتلاءِ شدید کی صورت میں سوال میں ذکر کردہ معاملہ میں جواز کی گنجائش کا قول اختیار کیا ہے۔ (امداد الفتاوی۔3/342) گویا احناف اہلِ علم کے نزدیک اگرابتلاءِ عام کی صورت میں کسی نے یہ معاملہ کرلیا ہو تو اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، البتہ ان کے نزدیک ابتداءً ایسا معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن بعض اہل علم، جیسا کہ امام احمد سے ایک قول مروی ہے کہ یہ اجارہ نہیں بلکہ شراکت ہے، اور شراکت کی عام صورتوں کی طرح یہ بھی جائز ہے اور اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے اور اس کے جواز پر بڑی تفصیلی گفتگو فرمائی ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«تجوز المغارسة عندنا على شجر الجوز وغيره، بأن يدفع إليه أرضَه ويقول: اغرِسْها من الأشجار كذا وكذا، والغرس بيننا نصفين. وهذا كما يجوز أن يدفع إليه ماله يتجر فيه، والربح بينهما نصفين، وكما يدفع إليه أرضه يزرعها، والزرع بينهما، وكما يدفع إليه شجره يقوم عليه، والثمر بينهما، وكما يدفع إليه بقره أو غنمه أو إبله يقوم عليها، والدَّر والنسل بينهما، وكما يدفع إليه زيتونه يعصره، والزيت بينهما، وكما يدفع إليه دابتَه يعمل عليها، والأجرة بينهما، وكما يدفع إليه فرسه يغزو عليها، وسهمُها بينهما، وكما يدفع إليه قَناةً يستنبط ماءها، والماء بينهما، ونظائر ذلك. فكل ذلك شركة صحيحة قد دلَّ على جوازها النص والقياس واتفاق الصحابة ومصالح الناس، وليس فيها ما يوجب تحريمها من كتاب ولا سنة ولا إجماع ولا قياس ولا مصلحة، ولا معنى صحيح يوجب فسادها.
والذين منعوا ذلك عذرهم أنهم ظنُّوا ذلك كله من باب الإجارة، فالعوض مجهول فيفسد. ثم منهم من أجاز المساقاة والمزارعة للنص الوارد فيها، والمضاربةَ للإجماع، دون ما عدا ذلك… والصواب جواز ذلك كله، وهو مقتضى أصول الشريعة وقواعدها؛ فإنه من باب المشاركة التي يكون العامل فيها شريكَ المالك، هذا بماله، وهذا بعمله، وما رزق الله فهو بينهما. وهذا عند طائفة من أصحابنا أولى بالجواز من الإجارة، حتى قال شيخ الإسلام: هذه المشاركات أحلُّ من الإجارة. قال: لأن المستأجر يدفع ماله، وقد يحصل له مقصوده وقد لا يحصل، فيفوز المُؤجِر بالمال والمستأجر على الخطر، إذ قد يكمل الزرع وقد لا يكمل، بخلاف المشاركة؛ فإن الشريكين في الفوز وعدمه على السواء، إن رزق الله الفائدة كانت بينهما، وإن منعها استويا في الحرمان، وهذا غاية العدل؛ فلا تأتي الشريعة بحلِّ الإجارة وتحريم هذه المشاركات.
وقد أقرّ النبي صلى الله عليه وسلم المضاربة على ما كانت عليه قبل الإسلام، وضاربَ أصحابه في حياته وبعد موته، وأجمعت عليها الأمة، ودفع خيبر إلى اليهود يقومون عليها ويعمرونها من أموالهم بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع، وهذا كأنه رأيُ عينٍ، ثم لم ينسخه، ولم ينْهَ عنه، ولا امتنع منه خلفاؤه الراشدون وأصحابه بعده، بل كانوا يفعلون ذلك بأراضيهم وأموالهم، يدفعونها إلى من يقوم عليها بجزء مما يخرج منها، وهم مشغولون بالجهاد وغيره». [أعلام الموقعين 4/ 433-432]
اس تفصیلی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ درختوں، پھلوں، جانوروں اور ذرائع آب پاشی وغیرہ سب میں شراکت کی یہ صورت جائز ہے کہ سرمایہ یا چیز کسی ایک کی ہو اور دوسرا اس پر محنت کرے اور نفع دونوں کا آپس میں آدھا آدھا یا طے شدہ نسبت کے حساب سے ہو۔ نصوصِ شریعت، اجماع و قیاس جیسے تمام دلائل اس کے جواز پر دلالت کناں ہیں اور یہ مضاربت و شراکت کی وہی صورت ہے جو عہدِ نبوت اور دورِ صحابہ میں رائج تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی اس سے منع نہیں فرمایا۔بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اسے اجارہ کہہ کر ناجائز قرار دینے کی بجائے یوں فرمایا ہے کہ شراکت کی یہ صورت اجارہ کی متفق علیہ جائز صورتوں سے بھی حلت و جواز کا زیادہ حق رکھتی ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ