سوال (1359)
شیخ، سوال یہ ہے کہ جانور ذبح کرنے کو animal cruelty قرار دینا شرعاً کیسا ہے؟
اور جانوروں کے اون کھال وغیرہ کے استعمال کو ان کا استحصال قرار دینا شرعاً کیسا ہے؟
جواب
اس کو دو حصوں میں تقسیم کرلیں، بذات خود یہ اعتراض کیسا ہے؟ اور دوسرا اس اعتراض اور نظریے کے قائل کا کیا حکم ہے؟
اس اعتراض کا شرعی اور عقلی دونوں طرح سے جواب دیا جا سکتا ہے۔
شرعی اعتبار سے جواب یہ ہے کہ قرآن وسنت میں ایسا کوئی اصول بیان نہیں ہوا کہ جانور کو ذبح کرنا اور اس کے گوشت، کھال، اون وغیرہ سے فائدہ اٹھانا یہ جانوروں کے ساتھ زیادتی یا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔
بلکہ الٹا جانوروں کو ان نعمتوں میں سے ذکر کیا گیا ہے، جن سے انسان مختلف طریقوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
عقلی جواب یہ ہے کہ جس طرح انسان اللہ کی مخلوق ہیں، اسی طرح جانور بھی اللہ کی مخلوق ہیں، جب اللہ تعالی نے اپنی ایک مخلوق کو دوسری سے انتفاع یعنی فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہے، تو پھر کسی دوسرے کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟
جانور اور پودے دونوں کا شمار جانداروں میں ہوتا ہے، جو گوشت کھانا جانوروں پر ظلم سمجھتا ہے، وہ سبزیاں اور پھل فروٹ کھا کر درختوں پر ظلم کا ارتکاب نہیں کرتا؟
یہاں یہ بات بھی قابلِ وضاحت ہے کہ جانوروں کے ساتھ ناروا سلوک کا ضابطہ کیا ہے؟ کل کو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ جانور کو جانور کیوں بنایا گیا ہے، یہ بھی اس پر ظلم ہے؟
حلال چیزوں میں سے کسی چیز کو کھانا نہ کھانا یہ جائز ہے، لیکن اسے مطلقا حرام قرار دینا بالکل اسی طرح ناجائز اور شریعت میں مداخلت ہے، جس طرح کسی حرام چیز کو اپنے لیے حلال کر لینا۔
اور پھر اس تحریم کے لیے باقاعدہ دلیل دینا کہ یہ ظلم اور ناانصافی ہے، یہ براہ راست شریعت اور صاحب شریعت پر اعتراض ہے، جو کہ کفریہ نظریہ ہے۔
بالفاظِ دیگر یہ شریعت سازی ہے، افتراء علی اللہ ہے، اللہ ارحم الرحمین اور رسول رحمت للعالمین پر الزام واتہام ہے، اور یہ سب چيزیں کفر ہیں۔
ایسے نظریے کے حامل شخص کو اس کے نظریات کی خطرناکی بیان کی جائے گی، اگر اتمام حجت کے باوجود وہ ان پر قائم رہے تو بظاہر اس کی تکفیر میں کوئی مانع نظر نہیں آتا. واللہ اعلم۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ