’’جشنِ میلاد کے بارے میں علماءِ مذاہب اربعہ کی آراء‘‘

⇚شافعی فقیہ، علامہ ظہیر الدین جعفر بن یحیی تزمنتی رحمہ اللہ (٦٨٢هـ) ’’جشنِ میلاد‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:

«هذا الفعل لم يقع في الصَّدر الأوَّل مِن السَّلف الصالح مع تعظيمهم وحُبهم له ﷺ إعظامًا ومحبة لا يَبلغ جميعنا الواحد مِنهم».

’’نبی کریم ﷺ سے محبت اور آپ کی تعظیم کے باوجود دورِ اول کے سلف صالحین نے یہ عمل نہیں کیا، حالانکہ ہم سب کی رسول اللہ ﷺ کے لیے محبت وتعظیم مل کر بھی ان میں سے کسی ایک کے برابر نہیں پہنچ سکتی۔‘‘ (سبل الهدى والرشاد للصالحي الشامي : ١/‏٣٦٤)
⇚علامہ تاج الدین فاکہانی مالکی رحمہ اللہ (٧٣٤هـ) فرماتے ہیں:

«لا أعلم لهذا المولد أصلا في كتاب ولا سنة، ولا ينقل عمله عن أحد من علماء الأمة، الذين هم القدوة في الدين، المتمسكون بآثار المتقدمين؛ بل هو بدعة أحدثها البطالون، وشهوة نفس اغتنى بها الأكالون».

’’میرے علم میں اس کی قرآن وسنت میں کوئی اصل نہیں، نہ ہی ایسا کوئی عمل علماءِ امت میں سے کسی سے منقول ہے کہ جو اس دین میں اسوہ ہیں اور آثارِ متقدمین کو مضبوطی سے تھامنے والے ہیں، بلکہ یہ بدعت ہے جسے فارغ لوگوں نے گھڑ لیا ہے اور شہوت نفس ہے جس کا کھانے پینے کے شوقین لوگوں نے فائدہ اٹھا رکھا ہے۔‘‘ (المورد في عمل المولد، صـ ٨)
⇚مالکی فقیہ، علامہ ابو عبد اللہ محمد بن على حفار رحمہ اللہ (٨١١هـ) فرماتے ہیں:

«ليلة المولد لم يكن السَّلف الصالح وهُم أصحاب رسول الله ﷺ والتابعون لهم: يجتمعون فيها للعبادة، ولا يفعلون فيها زيادة على سائر ليالي السَّنة. والخير كله في اتِّباع السَّلف الصالح الذين اختارهم الله له، فما فعلوه فعلناه، وما تركوه تركناه».
فإذا تقرَّر هذا: ظهر أنَّ الاجتماع في تلك الليلة ليس بمطلوب شرعًا، بل يُؤمر بتركه».

’’سلف صالحین یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام نہ تو میلاد کی رات جمع ہوتے اور نہ ہی اس رات میں سال کی دوسری راتوں سے زیادہ کوئی عمل کرتے۔ اور ساری کی ساری بھلائی سلف صالحین کی اتباع میں ہے، جنہیں اللہ تعالی نے چُنا، جو عمل انہوں نے کیا ہم وہ کریں گے اور جو عمل انہوں نے چھوڑ دیا ہم اسے چھوڑ دیں گے۔‘‘ (المعيار المعرب للونشريسي : ١/ ١١٢ – ١١٣)
⇚حنفی فقیہ، علامہ محمد بخیت مطيعی رحمہ اللہ (١٣٥٤هـ) نے بھی اس کے اول موجد فاطمی خلفاء کو قرار دیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:

«مِمَّا أُحْدِث وكثُر السؤال عنه المولد، فنقول: إنَّ أوَّل مَن أحدثها بالقاهرة الخلفاء الفاطميون».

’’نئی جاری کردہ چیزوں میں سے عید میلاد بھی ہے کہ جس کے متعلق بہت زیادہ سوال کیا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اسے سب سے پہلے قاہرہ میں فاطمی خلفاء نے جاری کیا تھا۔‘‘ (أحسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الأحكام، صـ : ٥٩)
⇚حنبلی فقیہ، شیخ عبد اللہ بن عبد العزيز ابن عقیل رحمہ اللہ (١٤٣٢هـ) فرماتے ہیں:

«الاحتفال بالمولد ليس بمشروع، ولم يفعله السلف الصالح -رضوان اللَّه عليهم- مع قيام المقتضي له، وعدم المانع منه. ولو كان خيرا لسبقونا إليه، فهم أحق بالخير، وأشد محبة للرسول صلى الله عليه وسلم، وأبلغ تعظيما، وهم الذين هاجروا معه، وتركوا أوطانهم، وأهليهم، وجاهدوا معه حتى قتلوا دونه، وفدوه بأنفسهم وأموالهم».

’’جشنِ میلاد مشروع نہیں ہے، اس کا مقتضی ہونے اور مانع کی عدم موجودگی کے باوجود سلف صالحین رضی اللہ عنہم نے اسے نہیں کیا، اگر یہ بھلائی ہوتی تو وہ اس میں ہم سے سبقت لے جاتے، وہ بھلائی کے زیادہ حقدار، رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبت کرنے والے اور آپ کی بھرپور تعظیم کرنے والے تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی، اپنے وطن اور اہل وعیال کو چھوڑ دیا، آپ کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے آپ کے دفاع میں شہید ہوگئے، انہوں نے تو اپنی جانوں اور اموال کو آپ ﷺ پر نچھاور کر دیا۔‘‘ (فتاوى الشيخ : ٢/ ٤٣٠)
فائدہ:
⇚علامہ محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ (١٢٥٠هـ) فرماتے ہیں:

«لم أجد إلى الآن دليلًا يدل على ثبوته من كتاب، ولا سُنة، ولا إجماع، ولا قياس، ولا استدلال. بل أجمع المسلمون: أنَّه لم يوجد في عصر خير القرون، ولا الذين يلونهم، ولا الذين يلونهم. ولم يُنكر أحد مِن المسلمين: أنَّه بدعة».

’’مجھے ابھی تک اس جشن پر کوئی دلیل نہیں ملی، نہ قرآن سے، نہ سنت سے، نہ اجماع سے، نہ قیاس سے اور نہ استدلال سے۔ بلکہ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ چیز خیر القرون کے دور میں، ان کے بعد والے دور میں اور اُن کے بعد والے دور میں بالکل نہیں تھی، کوئی ایک بھی مسلمان اس کے بدعت ہونے کا انکار نہیں کرتا۔‘‘ (الفتح الرباني : ٢/ ١٠٨٧ – ١٠٨٨)

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پڑھیں: ’’سنو! میرے نبی ﷺ کے پاس شور نہ کرو۔‘‘