جوانی کی عبادت
جوانی میں عبادت کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ زندگی کے اس مرحلے میں انسان کا زیادہ تر رجحان دنیوی مستقبل کی طرف ہوتا ہے، آنے والے ایام کے لیے پلان و منصوبے ترتیب دیتا ہے، خواب بُنتا ہے ۔ شعوری و غیر شعوری طور پر ذہن میں ہوتا ہے کہ ابھی زندگی بہت پڑی ہے، توبہ و نیکی کے لیے تو بڑھاپے کی عمر کافی ہوتی ہے، اور بھول جاتا ہے کہ قبرستان کتنے ہی ایسے نوجوانوں سے بھرے پڑے ہیں کہ جو ادھیڑ عمری میں توبہ کی امید لگائے دنیا میں مگن تھے ۔
محمد بن حفص قرشی بیان کرتے ہیں :
«كتب رجل من الحكماء إلى أخ له شاب: أما بعد، فإني رأيت أكثر من يموت الشباب، وآية ذلك أن الشيوخ قليل»
کہ ایک دانا نے اپنے نوجوان دوست کو خط لکھا؛ ’’اما بعد! میں سمجھتا ہوں کہ اکثر اموات نوجوانوں کی ہی ہوتی ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ بوڑھے (نوجوانوں سے) تھوڑے ہوتے ہیں۔‘‘ (1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی جوانی کی عبادت کی تحسین و توصیف فرمائی۔ روزِ قیامت، عرشِ الہی کا سایہ پانے والوں میں عبادت گزار نوجوان کا ذکر فرمایا۔ (2)
اس مرحلے کی عبادت اس لیے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ عموما نوجوانی میں فکری شبہات اور نفسانی خواہشات کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے، ذہنی افکار و عملی معاملات میں ٹھہراؤ کم ہوتا ہے، اسی عمر میں راست روی اختیار کر لینا اللہ تعالی کو بھی پسند ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا :
«إنَّ اللَّهَ لَيَعْجَبُ مِنَ الشّابِّ لَيْسَ لَهُ صَبْوَةٌ».
’’اللہ تعالی! اس نوجوان سے خوش ہوتے ہیں کہ جو اپنی خواہشاتِ نفس کی طرف مائل نہ ہو۔‘‘ (3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’(عرش کا سایہ پانے والوں میں) رسول اللہ ﷺ نے جوانی کو اس لیے خاص کیا کہ اس دور میں خواہشات کی پیروی کی طاقت رکھنے کی وجہ سے شہوات کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے تو اس کے غلبے کے باوجود عبادت پر ملازمت اختیار کرنا تقوی و پرہیزگاری پر زیادہ پختہ وقوی دلیل ہے۔‘‘ (4)
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوان جسمانی لحاظ سے بھی بھرپور طاقت کا مالک ہوتا ہے، مشقت و اعمال شاقہ کی طاقت رکھتا ہے جو کہ زندگی کے کسی دوسرے مرحلے میں حاصل نہیں ہوتی ۔
حفصہ بنت سیرین رحمہا اللہ سے مروی ہے کہ وہ فرمایا کرتی تھیں :
«يا مَعْشَرَ الشَّبابِ اعْمَلُوا، فَإنَّما العَمَلُ فِي الشَّبابِ»
’’نوجوانو! عمل کرو، بے شک اصل عمل تو جوانی کا ہے۔‘‘ (5)
اسی طرح سری سقطی رحمہ اللہ کے متعلق آیا ہے کہ وہ اپنے گرد بیٹھے نوجوانوں سے کہتے :
«أنا لَكُمْ عِبْرَةٌ، يا مَعْشَرَ الشَّبابِ، اعْمَلُوا فَإنَّما العَمَلُ فِي الشَّبِيبَةِ»
’’اے نوجوانو! میں تمہارے لیے باعثِ عبرت ہوں، عمل کرو، یقیناً حقیقی عمل تو جوانی میں ہوتا ہے۔‘‘ (6)
جوانی کا دور انسانی زندگی کے دو کمزور مراحل کے درمیان آتا ہے، ایک طرف بچپن کی کمزور اور ضعف ہے اور دوسری طرف بڑھاپے کی لاغری و نحیف پن ہے، قیامت کے دن کے اہم سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی ہو گا کہ اپنی نوجوانی کو کہاں کھپایا؟ (7)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بالخصوص جن چیزوں کو غنیمت جان کر ان سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی، ان میں بھی اس کا ذکر فرمایا : شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ. ’’جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت سمجھو۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
ما آتى الله عبدًا علمًا إلا شابًّا، والخير كله في الشباب، ثم تلا قوله : ﴿قالوا سمعنا فتى يذكرهم يقال له إبراهيم﴾، وقوله تعالى: ﴿إنهم فتية آمنوا بربهم وزدناهم هدى﴾، وقوله تعالى: ﴿وآتيناه الحكم صبيًّا﴾.
کہ اللہ تعالی نے جس بندے کو بھی علم دیا، جوانی میں دیا اور ساری بھلائی جوانی میں ہے ۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت کیں:
’’(ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے) کہا کہ ہم نے ایک نوجوان کو اپنے بتوں کا ذکر کرتے سنا ہے جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔‘‘
’’وہ (أصحاب کہف) چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ہدایت میں مزید پختہ کر دیا۔‘‘
’’اور ہم نے ان (یعنی یحیی علیہ السلام) کو ابتدائے عمر ہی سے حکمت سے نوازا تھا۔‘‘ (9)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ما شَبَّهتُ الشبابَ إلا بشيءٍ. كانَ في كُمّي فسقط.
’’میں جوانی کو صرف اسی چیز سے تشبیہ دیتا ہوں کہ گویا میری آستین میں کوئی چیز تھی جو گر گئی۔‘‘ (10)
امام احمد رحمہ اللہ کے قول کا مطلب ہے کہ جوانی نہایت مختصر ہوتی ہے، جب گزر جاتی ہے تو ایسا لگتا ہے گویا کوئی چھوٹی سی ساعت وگھڑی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئی ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی کو بالعموم اور نوجوانی کو بالخصوص نفع بخش بنانے کی توفیق دے، علم نافع سے بہرہ ور فرمائے، عمل صالح کی ہدایت بخشے۔
إنه سميع قريب، مجيب الدعوات.
______________________________________________
حوالہ جات :
(1) اقتضاء العلم العمل للخطيب : 191
(2) صحیح بخاری : 660
(3) السنة لابن أبى عاصم: 571 وصححه الألبانى۔
(4) فتح الباری : 2/ 145
(5) الفقيه والمتفقه للخطیب : 190
(6) الزھد الکبیر للبیہقی : 492
(7) سنن الترمذی : 2416 وفى سنده ضعف۔
(8) المستدرک للحاکم : 4/ 341، وسندہ حسن۔
(9) احیاء علوم الدین للغزالی :1/ 144 ولم أره مسندا۔
(10) مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي : 1/ 271 وسندہ لا بأس بہ۔
حافظ محمد طاھر