امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی “الفروسیہ” میں فرماتے ہیں کہ:
{قتال دفاعی قتال طلبی سے زیادہ وسیع اور وجوب کے اعتبار سے زیادہ عام ہے(یعنی اس میں طلبی جیسی شروط و قیود نہیں)اور جہاد کی اس نوع میں یہ شرط نہیں پائی جاتی کہ دُشمن مسلمانوں کے مقابلے میں (زیادہ سے زیادہ) دُگنا یا اُس سے کم ہو، کیونکہ اُحد اور خندق کے دن یقینًا وہ مسلمانوں سے کئی گُنا زیادہ تھے، البتہ جہاد اُن پر واجب تھا، کیونکہ ایسے وقت میں جہاد اضطراری اور دفاعی ہوتا ہے نہ کہ اختیاری۔اور اسی لیے جہاد کی اس نوع میں صورتحال کے مطابق نماز خوف کی رخصت پائی جاتی ہے}
[فقتال الدفع أوسع من قتال الطلب وأعمّ وجوباً … ولا يشترط في هذا النوع من الجهاد أن يكون العدو ضعفي المسلمين فما دون، فإنهم كانوا يوم أُحد والخندق أضعاف المسلمين، فكان الجهاد واجباً عليهم، لأنه حينئذٍ جهاد ضرورة ودفع لا جهاد فقتال الدفع أوسع من قتال الطلب وأعمّ وجوباً … ولا يشترط في هذا النوع من الجهاد أن يكون العدو ضعفي المسلمين فما دون، فإنهم كانوا يوم أُحد والخندق أضعاف المسلمين، فكان الجهاد واجباً عليهم، لأنه حينئذٍ جهاد ضرورة ودفع لا جهاد اختيار، ولهذا تباح فيه صلاة الخوف بحسب الحال في هذا النوع”]
امام نووی شرح صحیح مسلم میں کہتے ہیں، کہ “ہمارے اور دیگر شوافع کے نزدیک آج جہاد فرض کفایہ ہے، سوائے اس کے کُفا ر مسلمانوں کی سرزمین پر پڑاؤ کرلیں، تو جہا د اُن پر لازم ہوجاتا ہے، پھر اگر اُس علاقے کے لوگ (دفاع کے لیے) کفایت نہ رکھتے ہوں تو اُن کے ساتھ والوں پر (جہاد) واجب ہوجاتا تاکہ (دفاع) کے لیے کفایت تامہ حاصل
ہوجائے”
اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ “مجموع” میں فرماتے ہیں
کہ {جہاد ہر مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے کہ جب کسی بھی مُلک میں جہاں کلمہ لا الہ الا اللہ موجود ہے مُسلمانوں کی حُرمت پامال کی جائے… اللہ تعالی کے اس قول کی بنا پر کہ “نکلو، تم ہلکےہو یا بھاری” اور معمر کے اس قول کی بنا پر کہ مکحول قبلہ رُخ ہو کر دس بار حلف اُٹھایا کرتے کہ لڑائی واجب ہے، پھر کہتے کہ اگر تُم چاہو تو میں تمہارے لیے (عدد حلف) اور بڑھادوں”}
[والجهاد فرض عين على كل مسلم إذا انتهكت حرمة المسلمين في أي بلد فيه لا إله إلا الله محمد رسول الله …. لقول الله تعالى (انفروا خفافا وثقالا) ولقول معمر كان مكحول يستقبل القبلة ثم يحلف عشر أيمان أن الغزو واجب، ثم يقول ان شئتم زدتكم]
ضیاء اللہ برنی