قارئین کرام، جو شخص علم استدلال کے طریق پر سلف صالحین کے مناھج اور اُن کے اقوال کے محل کو جان کر بات کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، وہ دلیل کے ساتھ بات کرتا ہے۔ وگرنہ یہ تعلّی آمیز دعوے اور مُفخم الفاظ میں منھج سلف کی اہمیت اور بڑھکیں اسی طرح بے کار ہیں جیسے اہل بدعت اتباع رسول کریم کی بجائے غلو آمیز نعتوں پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ ایک دلیل صحیح ہزار کھوکھلی تحریروں اور مزین عبارتوں پر بھاری ہوتی ہے۔
ہم ابھی بھی مُنتظر ہیں کہ کوئی دیسی یا ولایتی مدخلی کتاب و سُنت اور پھر فہم سلف کی روشنی میں جہاد قدس کا خلاف منھج ہونا ثابت کردے، ہماری تحریر کا علمی رد کرے، یا ابن سلمان کی علی الاعلان شیطنیت پر علانیہ انکار کا غیر مشروع ہونا ثابت کردے، یا اُس کے علانیہ کُفر و شرک مثل شیطان پرست (satanist) مغربی گویوں کی سرپرستی، رابطہ عالم اسلامی کے ذریعے “دین انسانیت” اور محبت یہودیت کے فروغ اور ہندو مذہبی پیشواؤوں کی اس کی بنیاد پر تکریم، (Halloween) جیسی خالص شرکیہ تہوار کی سرکاری سرپرستی اور ترویج اور دیگر ایسے کثیر شرکیہ اقدامات جو یقینا سرزمین حجاز کو (معاذ اللہ) زمانہ جاہلیت سے بدتر شرک کی طرف لے جارہے ہیں اور جس کے عزم کا اعادہ وہ vision 2030 کے ذریعے کرچُکا، تو ان تمام منکرات پر جو نہ صرف سعودیہ بلکہ کُل عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں، رُحیلی جیسے درباری مُلاؤں کی مکمل خاموشی لیکن جہاد قدس کی حجیت کے خلاف ہزرہ سرائی کو منھج شریعت کے موافق ہونا ثابت کردے، یا یہی ثابت کردے کہ الگ الگ عرب ریاستوں کے ازراییل سے امن معاہدات کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ لیکن استدلال تو کُجا یہ بیچارے مقلدین مداخلہ اتنی بھی اہلیت نہیں رکھتے کہ رُحیلی کی بات کی دلیل اُس سے پوچھ کر ہی دے دیں کیونکہ اُوپر سے نیچے تک سارا ٹولہ ہی ظلمات بعضھا فوق بعض ہے۔
الحمد للہ، اب آہستہ آہستہ دُنیا بھر سے علمائے اہل سُنت اس جہل کو واضح کرنے لگے ہیں۔ ہم سے بعض دوستوں کو شکوہ ہے رُحیلی جیسوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرتا ہوں، تو گزارش ہے کہ میرے نزدیک اُس کے مذکورہ بالا تمام مواقف یا بیانات اجتہادی دائرے میں نہیں آتے بلکہ اجماع اُمت کے خلاف ایک بدترین بدعت کی بُنیاد ہے جو ارجاء اور خارجیت کا مُرکب ہے اور جس نے منھج اہلحدیث کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ میں ہزار اجتہادی اختلافات بلکہ اپنے جیسے طالب علموں سمیت علمائے کرام کی لغزشوں کے باوجود اُن کے احترام کا قائل ہوں اور اُن کا طفیلی بن کر رہنے میں فخر محسوس کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ (لحوم العلماء مسمومة)، لیکن رسول اللہ کے دین کو رضائے سلاطین کے تابع کرکے اُمت کے معصوم خون کو بیچنے والے درباری مُلاؤوں کی تکریم کرنا جُرم سمجھتا ہوں، بلکہ ایسے منافقین سے سختی عین جہاد اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتا ہوں، بحکم الہی (جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم)، اور منافقین سے جہاد جیسا کہ علمائے اُمت نے بتایا غالبا قول کے ساتھ ہی ہوتا ہے ۔کیونکہ اس طرح کے غالی مبتدعین کا احترام اُن کے نفاق کو مزید سند دینا ہے۔ البتہ آپ کو میری اس رائے سے اختلاف کا پورا حق ہے۔
یہ وقت تھا کہ جب اہلحدیث متحد ہوکر جہاد قدس میں کتاب و سُنت اور حقیقی منھج سلف کی روشنی میں اُمت کی رہنمائی کرتے، حق امامت ادا کرتے، لیکن ان کنویں کے مینڈکوں نے جہاں دین اسلام کی انتہائی غیر فطری تعبیر کرکے، تاریخ تشریع اسلامی میں جُہال اور مخالفین جہاد قدس میں اپنا نام لکھوا لیا، وہیں کثیر عوام کو بھی گُمراہ کیا کہ وہ بدعت کو شرک اکبر سے بڑا جُرم یا توحید کو عمل کی بجائے صرف اعتقاد تک محدود سمجھنے لگے، حالانکہ باجماع امت، ایمان اعتقاد، قول اور عمل کے مرکب کا نام ہے۔ ساتھ ساتھ اس تنگ نظری نے بدعتی مناھج اخوانیت اور خارجیت کو بھی اس موقع پر عوام میں پنپنے کا خوب موقع دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ولن يشاد الدين احد إلا غلبه)، یعنی دین میں غلو اور تشدد سے کام لینے والا دین کو تنگ نہیں کرسکتا، البتہ دین اُس کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح جب ان مداخلہ نے دفاع حرمات شعائر اللہ اور حرمات مسلم اور اہل فلسطین کی نُصرت کو منھج توحید سے نکال کر اُسے سلاطین کے تابع کرنے کی کوشش کی تو نہ اسے دُنیا بھر میں فطرت مسلم نے قبول کیا نہ کتاب و سُنت ہی کی تائید ملی یہاں تک کہ یہ مداخلہ خود بھی ذلیل ہوئے اور اپنے ہیروکاروں کو بھی ذلیل کروایا اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور رہے گا ان شاء اللہ۔
ضیاء اللہ برنی