سوال
کیا خبیث جنات یا شیاطین کا عورتوں یا نو بالغہ بچیوں کیساتھ کسی قسم کی شرارت کرنا یا انکے ساتھ کسی قسم کی بیہودگی اور بدفعلی کرنا ممکن ہے، یا یہ بس خام خیالی ہے؟ اسکے متعلق تفصیل سے رہنمائی فرمادیں کیونکہ ایک فیملی اس قسم کے مسائل سے متاثر ہے اور بہت پریشان ہے۔
جواب
ابلیس جنوں میں سے ہے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“اِنَّه يَرٰٮكُمۡ هُوَ وَقَبِيۡلُهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا تَرَوۡنَهُمۡ”. [الأعراف: 27]
’’بے شک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے‘‘۔
جنات ایک غیر مرئی چیز ہے، جو انسانوں کو دیکھتے ہیں لیکن انسان عام حالات میں انہیں نہیں دیکھ پاتے ۔ اور اللہ تعالی نے انہیں یہ بھی طاقت دی ہے کہ یہ انسانی روپ دھار سکتے ہیں۔ لہذا وہ انسانی روپ دھار کر عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں۔
رہی یہ بات کہ بحیثیت جن ہونے کے یہ انسان سے ہم بستر ہو سکتے ہیں یا نہیں؟
اس بارے میں دونوں اقوال اہلِ علم کے ہاں موجود ہیں۔
چنانچہ ابن الجوزی اور ابن تیمیہ وغیرہ بزرگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ ممکن ہے۔ اس ضمن میں وہ ارشاد باری تعالیٰ پیش کرتے ہیں:
“لَمۡ يَطۡمِثۡهُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَهُمۡ وَلَا جَآنٌّ”.[الرحمن: 56]
’’جنہیں ان سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا ہے اور نہ کسی جنّ نے‘‘۔
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وفي الآية دليل على أن الجِنِّيَّ يَغْشَى المرأة كالإنسيّ». [زاد المسير في علم التفسير 4/ 214]
’اس آیت میں دلیل ہے کہ جن میں بھی انسان کی طرح عورت کے ساتھ وطی کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے‘۔
حنبلی فقیہ مرداوی رحمہ اللہ نے ابن جوزی رحمہ اللہ کا قول ذکر کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا ہے کہ اگر عورت کے ساتھ کوئی جن مجامعت کرلے تو اس پر غسل کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ [الإنصاف 2/ 98 ت التركي]
اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد يتناكح الإنس والجن ويولد بينهما ولد وهذا كثير معروف وقد ذكر العلماء ذلك وتكلموا عليه وكره أكثر العلماء مناكحة الجن». [مجموع الفتاوى 19/ 39]
’ ایسے کئی واقعات معروف ہیں کہ انسان اور جن نکاح کر لیتے ہیں اور ان کی اولاد بھی ہوتی ہے، اگرچہ اکثر اہلِ علم نے جن سے نکاح کرنے کو ناپسندیدہ خیال کیا ہے‘۔
جبکہ دوسرا موقف یہ ہے کہ جن اور انسان دو الگ الگ اجناس ہیں۔ جس طرح اونٹ اور گدھا الگ الگ اجناس ہیں اور انکا آپس میں ملاپ ممکن نہیں اسی طرح جن و انس کا بھی آپس میں ملاپ ناممکن ہے۔سوائے ایک صورت کے کہ وہ انسانی شکل میں آجائیں تو پھر ملاپ ممکن ہے۔
امام شوکانی اور شیخ البانی وغیرہ اہلِ علم نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
دونوں طرف کے اقوال کو سامنے رکھ کرمحسوس یہ ہوتا ہے کہ اصل اور فطرت تو یہی ہے کہ جن اور انس کے آپس میں جنسی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے، لیکن بعض شاذ حالات میں اس قسم کے واقعات کا امکان موجود ہے۔
لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی بھی جن یا انسان کے لیے ایسا کرنا شرعی طور پر جائز نہیں ہے کہ وہ دوسری جنس سے تعلقات رکھے، کیونکہ یہ اس فطری قانون کے خلاف ہے جو اللہ تعالی نے جنسی تعلقات کے حوالے سے بنایا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
“ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجاً لتسكنوا إليها وجعل بينكم مَّوَدَّةً ورحمة ً:. [الروم: 21]
’اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہار ے لیے تم میں سے ہی بیویاں بنائی ہیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان اللہ تعالی محبت و رحمت کا رشتہ بنایا ہے‘۔
’من أنفسکم‘ سے مراد یعنی انسانوں کے لیے انسان کی جنس سے ہی بیویاں بنائی ہیں۔
دوسری بات اگر کسی مرد یا عورت کو ایسی کوئی آزمائش لاحق ہو تو اسے چاہیے کہ جن اور شیطان کی چالوں سے بچنے کے لیے ذکر واذکار کا اہتمام کریں، رقیہ شرعیہ کا اہتمام کریں، تاکہ وہ ان کے شر سے محفوظ رہ سکے۔
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ