سوال (2855)
کسی چیز کا کھانا حرام ہے تو کیا اس کی قیمت بھی حرام ہے، کیا یہ کلی قاعدہ ہے،
مثلا گدھا حرام ہے، مگر اس کو بیچنا اس سے فائدہ اٹھانا کیسا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب
عام طور پر یہی قاعدہ ہے کہ کوئی چیز حرام ہے تو اس کی قیمت بھی حرام ہے، لیکن کچھ حرام جانور بوقت ضرورت انسان کو کام آتے ہیں، جیسا کہ شکاری کتا، کھیتی باڑی کا کتا اور ریوڑ کا کتا۔ اگر یہ دستیاب نہ ہوں تو بوقت ضرورت ان کو خریدا جا سکتا ہے۔ اس طرح گدھے کا معاملہ بھی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کسی چیز کا کھانا حرام ہو تو اس کی قیمت یا بیع بھی حرام ہے ، یہ قاعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ماخوذ شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إن الله إذا حرّم على قوم أكل شيء حرّم عليهم ثمنه،
-وفي رواية: وإن الله عز وجل إذا حرم أكل شيء حرم ثمنهُ.
إمام ابن حزم رحمه الله تعالى نے اس قاعدے کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
“وكل ما حرم أكل لحمه فحرام بيعه و لبنه، لأنه بعضه ومنسوب إليه”۔
لیکن اس قاعدے کی بھی استثناءات ہیں جیسے: ماں کا دودھ اپنے بچے کے لیے کہ وہ حلال ہے۔
القاعدة الكلية کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:
القاعدة الكلية هي التي تنطبق على كل جزئياتها.
اس تعریف کی روشنی میں ہم کہ سکتے ہیں کہ سوال میں پوچھا گیا قاعدہ کلیہ نہیں ہے۔ ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ اغلبیہ ہے۔ قاعدہ اغلبیہ کی تعریف یہ ہے:
القاعدة الأغلبية هي التي تنطبق على أكثر جزئياتها.
اس کے ساتھ ساتھ القاعدة الفقهية کی تعریف بھی اگر ملاحظہ فرمائیں تو بھی یہی بات مترشح ہوتی ہے:
قضية أغلبية تندرج تحتها جملة من الفروع الفقهية تعرف أحكماها منها
یہاں تعریف میں اغلبیت کی صفت استمال کی گئی ہے۔ اور یہی مذہب امام البكريّ كا الاستفتاء في الفرق والاستثناء میں اور الفنّاكي کا المناقضات میں اور تاج الدين السبكي کا الكبير في الأشباه والنظائر میں منقول ملتا ہے۔
ہمارے معاصرین میں سے ایک شیخ ہیں الدكتور عبد الرحمن الشعلان حفظه الله ورعاه، آپ نے 20 سال سے زیادہ عرصہ القواعد الفقیہ کی تدریس کی ہے۔ آپ کا ایک مقالہ ہے اس موضوع پر: المستثنيات من القواعد الفقهية أنواعها والقياس عليها۔ یہ لائق مطالعہ رہے گا۔
رہا آپ کے سوال میں بیان کردہ گدھے کی مثال۔ تو اس حوالے سے اوپر بیان کردہ تفاصیل کی روشنی میں عرض ہے کہ یہ اس قاعدے کا استثناء ہے۔ اس لیے کہ پالتو گدھا سواری اور باربرداری کے لائق ہے اور اس پر علماء کا اتفاق ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سواری بھی کی اور اس سے فائدہ بھی اٹھایا۔ لہذا اس کو اس قاعدے سے مستثنی قرار دینا ارجح ہے۔
اس ضمن میں فقہاء نے ایک اور قاعدہ بھی ذکر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
ما يجوز انتفاعه يجوز بيعه
جیسے شکاری کتا اور گدھا۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم
تنبيه: الأشباه والنظائر پر تاج الدين السبكي رحمه الله تعالى کی دو کتب ہیں:
1- الأشباه والنظائر.
2- الكبير في الأشباه والنظائر.
افسوس کہ دوسری کتاب ہم تک نہیں پہنچ سکی۔
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ