سوال (1687)

شیخ محترم ایسا جانور جس کا تھوڑا سا سینگ ٹوٹا ہو یا تھوڑا سا کان میں سوراخ ہو قربانی کے لیے خریدا جا سکتا ہے ؟

جواب

آدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹے اور کان کٹے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے ۔
جري بن كليب رحمہ اللہ (ثقہ تابعی ) کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے فرمایا:

“نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يضحى بأعضب القرن والأذن قال قتادة فذكرت ذلك لسعيد بن المسيب فقال العضب ما بلغ النصف فما فوق ذلك”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے اس “أعضب القرن والأذن” ( سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے) کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: «عضب»سے مراد وہ جانور ہے جس کا آدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹا یا کان کٹا ہو۔
[سنن ترمذی:۱۵۰۴، سنن ابو داود:۲۸۰۵ ، سنن ابن ماجہ:۳۱۴۵ ، سنن نسائی:۴۳۸۲ ، صحیح ابن خزیمہ:۲۹۱۳ ، مستدرک حاکم:۴؍۲۲۴،ح۷۵۳۰ ، الأحاديث المختارة: ج۱ ص۲۳۶ح۴۰۷]
نوٹ : امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی اس تشریح سے پتہ چلتا ہے کے معمولی ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی جائز ہے ، مگر نصف (آدھا) یا اس سے زیادہ سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ اور یاد رہے کہ پیدائشی طور پر سینگوں کا نہ ہونا قربانی سے مانع نہیں ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

سائل :
آج کل جو فیشن کے لیے جو سینگ کاٹ دیے جاتے ہیں یا جلا دیے جاتے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟
جواب :
قربانی درست نہیں ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

سائل :
شیخ عرض یہ ہے کہ مارکیٹ بھری ہوئی ہے ، ابھی گھنٹہ پہلے بازار میں سمجھا سمجھا تھک گیا ہوں ، لوگ کہتے کہ اب اسی طرح کے جانور آ رہے ہیں۔ اور دوسرا کہ اچھے ہی یہ لگتے ہیں۔
دلیل کوئی نہیں سنتا ہے ۔
جواب :
اس قسم کے عمل پر علماء کرام کو موثر آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو دین کے صحیح مسئلہ کا علم ہو سکے ، دوسری بات یہ ہے باقی جانوروں سے بھی مارکیٹ بھری پڑی ہے ، وہ خریدے جا سکتے ہیں ، تیسرا کسی کی ذاتی پسند نہ پسند کی وجہ سے دین کے ایک بنیادی مسئلہ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ