جس مُلک کی سرحد کی نگہبان ہیں آنکھیں

یہ محض اشتعال انگیز جذبات سے لبریز مبالغہ آرائی کا شاخسانہ نہیں بلکہ بامِ تاریخ پر چمکتے دمکتے ایسے حقائق ہیں جو ایمان کی تابناکی سے مزیّن اور مرتّب ہیں۔کیا بھارت ان سنہرے حروف سے تاباں تاریخ کے اجلے گوشوں سے نابلد ہے؟ کیا بھارت کو نہیں خبر کہ کشتیاں جلا ڈالنا ہمارا طرہ ء امتیاز ہے؟ کیا بھارت کو نہیں معلوم کہ دریاؤں میں گھوڑے دوڑا دینا ہمارے اسلاف کا شیوہ رہا ہے؟ اور کیا بھارت اس حقیقت سے بھی جان بوجھ کر باؤلا بنا ہوا ہے کہ چار چار لختِ جگر شہید کروا کر بھی ہماری ماؤں کے حوصلوں میں دراڑیں نہیں پڑیں؟ ان شجاعت مآب ماؤں کے عزم و استقلال میں خفیف سی لرزش اور ارتعاش نے جنم نہیں لیا۔ہماری اس شجاعت اور شہامت سے بھارت خوب آشنا ہے۔
ہے محبت اس وطن سے اپنی مٹی سے ہمیں
اس لیے اپنا کریں گے جان و تن قربان ہم
چلو! جگ بیتیوں کو چھوڑیے۔
کیا بھارت اپنے وجود پر لگے ان زخموں کو بھی بھول بیٹھا ہے جو 1965 ء کی جنگ میں لگے تو وہ بِلبلا اٹھا تھا؟ بھارت ان جوشیلے اور نوکیلے مناظر کو کیوں بھول رہا ہے؟ جب اُس نے حملہ کیا تو اہلِ پاکستان کے دلوں میں جذبوں اور ولولوں کی بہاریں یوں پھوٹ پڑی تھیں کہ جیسے یہ جنگ نہیں، کوئی عید کا سماں ہو۔کیا بھارت کو یاد نہیں کہ چونڈہ کا محاذ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا گیا تھا؟ کیا بھارتی جرنیل فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جب وہ لاہور میں شراب پینے، انار کلی میں شاپنگ کرنے اور مال روڈ پر سیر سپاٹے کرنے کا عزم لے کر چڑھ دوڑے تھے تو بی آر بی نہر پر اُن کی باچھیں اور ٹانگیں چیر دی گئی تھیں۔ پاکستانی جاں باز سپوت اپنے جسموں سے بم باندھ کر اور لبوں پر نعرہ ء تکبیر سجا کر دیوانہ وار شہادت کے لیے امڈ پڑے تھے۔کیا بھارت کو وہ گھاؤ بھول گئے ہیں جب چھمب کے محاذ پر اس کے دو بکتر بند ڈویژنوں کا صفایا کر کے اس کی تیرہ توپیں ہمارے قبضے میں آ گئی تھیں؟ کیا بھارت اس قدر عقل و شعور سے بے گانہ ہو چکا ہے کہ اسے یہ بھی یاد نہیں کہ برکہ کلاں کی جھاڑیوں میں جو اسلحہ و بارود سے بھری تھیں انھیں میجر عزیز بھٹی شہید نے کس شجاعت سے بھسم کر ڈالا تھا؟ چلو! اگر بھارتی وزیر اعظم مودی بڑھاپے کے سبب اپنی یاد داشت کھو بیٹھا ہے تو ہم باور کروا دیتے ہیں کہ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر حملہ کر کے تمھارے بارہ لڑاکا طیاروں کو ہم نے نیست و نابود کر دیا تھا۔
دنیا کی عسکری تاریخ آج تک ایم ایم عالم کے کارنامے پر انگشت بہ دنداں ہے کہ اس اکیلے سرفروش نے گیارہ بھارتی طیارے مار گرائے تھے۔ہماری سرحدوں پر آگ اور بارود برسانے والے یہ لوگ کیوں بھول رہے ہیں کہ جب 1965 ء میں جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اس وقت تک 110 بھارتی طیارے ملیا میٹ ہو چکے تھے۔ آج بھی نیویارک ٹائمز کے پرانے ریکارڈ کو پھرولیں تو اس کا یہ تبصرہ ملے گا کہ ” اشتراکی چین کا مقابلہ کرنا تو دُور کی بات ہے، بھارت تو اکیلے پاکستان کا مقَابلہ نہیں کر سکا “ واشنگٹن کے ایک اخبار نے لکھا کہ”یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ ہندوستان کے تمام دعوے مبالغہ آمیز تھے“
اس ملک کی سر حد کو کوئی چھو نہیں سکتا
جس ملک کی سرحد کی نگہبان ہیں آنکھیں
ممکن ہے کوئی بھارتی تجزیہ نگار یا بھارت سے متاثرہ شخص طعنہ زن ہو جائے کہ 1971 ء میں ہم نے پاکستان کو دو لخت کر دیا تھا۔جواب آں غزل کے طور پر عرض ہے کہ 1971 ء میں جنگ نہیں، سازش ہوئی تھی۔ وہ سازش بھی ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ تھی، اس سانحے کی وجہ سے ہمارے جذبہ ء ایمان کو قطعاً دوش نہیں دیا جا سکتا۔
شہادت کی وہی کلیاں ہمارے تن من میں آج بھی چٹکتی ہیں۔ ایمان آفریں جذبوں کی بہار جو ماضی قریب اور بعید میں ہماری پیشانی کا جھومر ہوا کرتی تھی، آج بھی ہمارے سینوں میں فروزاں ہے۔اس لیے کہ شہدا کا سرخ لہو ہی آزادی کا عنون ہوا کرتا ہے۔نازش پرتاپ گڑھی نے کہا ہے:
نہ ہو گا رائگاں خونِ شہیدانِ وطن ہر گز
یہی سرخی بنے گی ایک دن عنوانِ آزادی
اہلِ کشمیر کی زندگیوں کو اجیرن بنا دینے والے بھارتی جرنیل یہ کیوں بھول رہے ہیں؟ کہ 1965 ء میں تو ہم ایٹمی قوت بھی نہ تھے جب کہ آج ہم ایسے ایٹم بموں کے مالک بھی ہیں جو بھارتی ایٹم بموں سے کہیں بہتر ہیں۔سو ہم پر چاند ماری کرنا صرف زیاں کاری ہی نہیں بلکہ بھارتی عساکر کا خود ذلت اور ہزیمت کو گلے لگانے کے مترادف ہو گا۔اگر بھارت سرحدوں پر جنگی لذتیں کشید کرنے کا متمنی ہے تو ہمارے پاس ایسی لذتوں کا منہ توڑنے کے لیے وہی نسخہ ء اکسیرِ اعظم موجود ہے جس نے 1965 ء میں بھارتی عزائم کو قعرِ مذلت میں جھونک دیا تھا۔آج بھارت کی چھیڑ چھاڑ اور دہشت گردی کا مطمحِ نظر یہی ہے کہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا جائے۔
مگر بھارت کی ایسی کسی بھی جسارت کو اس کی حماقت بنا دیا جائے گا ان شا ء اللہ۔ جعفر ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے!
اے اہلِ وطن شام و سحر جاگتے رہنا
اغیار ہیں آمادہ ء شر جاگتے رہنا
پاکستان دو سپر پاورز کو کھڈے لائن لگا چکا ہے، بھارت کس باغ کی مولی ہے۔ بھارت کی موجودہ شرارتوں کو دیکھ کر کیا اب بھی اس حقیقت میں کوئی شبہہ رہ گیا ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی ہو چکی ہے، وہ بھارت اور بھارتی آلہ ء کاروں کی کارستانی ہے۔اگر بھارت خون کے بدلے آنسو نہیں خرید لینا چاہتا، اگر وہ آشفتہ سروں کے ہاتھوں اپنے سروں کو قربان نہیں کروانا چاہتا، اگر وہ بھارت کے گلی کوچوں کو شہرِ آشوب میں تبدیل کروانے کا متمنی نہیں تو وہ دہشت گردی کو پالنے پوسنے اور انگیخت دینے سے باز آ جائے اور مقبوضہ کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنا بند کر دے۔
بھارت غفلتوں کی اس موٹی ردا کو اتار پھینکے جو پانچ گنا بڑی فوج رکھنے کے زعم میں اس کی عقل پر پڑ چکی ہے۔ ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اندھیروں میں کتنا دم خم ہوتا ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سیاہیِ شب میں کتنی تاب اور سکت ہوتی ہے۔یہ عالمِ رنگ و بو خوب ادراک رکھتا ہے کہ اندھیرے جس قدر بھی اودھم بپا کر ڈالیں، تیرگیاں جتنی بھی ہڑبونگ مچا لیں، تاریکیاں جس قدر بھی جتھوں کی شکل میں یلغار کر ڈالیں، روشنی کی ایک کرن ان تمام تاریکیوں کو مٹا ڈالتی ہے اور مجھے کہنے دیجیے کہ ہم اس شمع کو اپنے خون سے روشن کرنے کے خوگر ہیں اور جب یہ شمع جل اٹھے تو پھر سرحدوں پر گولوں کی آواز ہمارے نزدیک چوڑیوں کی جھنکار سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔جعفر ملیح آبادی کا شعر ہے:
وطن کے جاں نثار ہیں وطن کے کام آئیں گے
ہم اس زمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے

( انگارے ۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں گزارے ہوئے ایام کی یادیں