سوال (6393)

متوفیہ کی وراثت کے متعلق سوال، وفات پانے والی ایک خاتون کی دوسرے نکاح میں سے کوئی اولاد نہیں ہے، جبکہ پہلے خاوند میں سے ایک بیٹا ہے، اس خاوند نے متوفیہ کو طلاق دے دی تھی، جبکہ اس کا دوسرا خاوند حیات ہے۔ اور متوفیہ نے 2 تولے سونا وراثت چھوڑی ہے، اس کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

جواب

پہلا خاوند جس نے طلاق دے دی تھی اس کا متوفیہ کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں،
بیٹا اپنی والدہ کی وراثت میں حصہ دار ہو گا، دوسرا خاوند جو حیات ہے اور وفات کے وقت جس کے نکاح میں تھی وہ بھی وراثت کا حقدار ہے، والد حیات ہیں تو وہ بھی وراثت کے حقدار ہیں۔
اگر یہی ورثاء ہیں تو دوسرے خاوند کا وراثت میں چوتھا حصہ والد کا چھٹا حصہ اور باقی سب کچھ بیٹے کو ملے گا۔
2 تولے سونے کی مالیت کے بارہ حصے کر لیے جائیں اور اس میں سے دو حصے والد کو، تین حصے خاوند کو اور سات حصے بیٹے کو دے دیے جائیں۔
شریعت کا تقاضا اور معاشرتی و سماجی الجھاؤ سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ کسی کی وفات کے بعد وراثت جلدازجلد تقسیم کر دی جائے،
صورت مسؤلہ میں یا تو مکان فوری فروخت کریں اور حصے تقسیم کر لیں یا پھر مکان بھائیوں کے استعمال میں رہے اور اس کی مالیت کا تخمینہ لگا کر بہنوں کا جتنا حصہ بنتا ہے وہ انہیں دے دیں تا کہ بہنیں بھی اپنے گھر کا بندوبست کر سکیں، بہنوں کے مکان کے کرائے میں وراثت کی کٹوتی کرنا مناسب نہیں۔

فضیلۃ الباحث طارق رشید وہاڑی حفظہ اللہ

سائل: شیخ وفات پانے والی خاتون کے اور بھی بھائی اور بہن ہیں؟
جواب: اولاد میں بیٹا موجود ہے جس کی وجہ سے بہن بھائی حقدار نہیں ہوں گے۔

فضیلۃ الباحث طارق رشید وہاڑی حفظہ اللہ