سوال (3321)
جسم کے کس کس حصے سے بال اتارنے چاہیے اور کس کس حصے سے نہ اتارے جائیں، جن بالوں کے اتارنے سے انسان پاک ہو جاتا ہے؟
جواب
اس میں تین چیزیں ہیں۔
(1) بغل کے بالوں کو نوچنے کا حکم ہے، اس حوالے سے میں خصوصی عرض کروں گا، ہمارے ہاں اکثریت ان بالوں کو مونڈتی ہے، جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے بغل کے بال بڑھ جاتے ہیں، ہر وقت کھجلی کا ہونا، اس کے بدلے بالوں کو نوچا جائے تو آہستہ آہستہ بال ختم ہو جائیں گے، ایک ثقہ راوی نے مجھے بتایا ہے کہ حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ کے بغلوں کے بال بالکل ختم ہوچکے تھے۔
(2) زیر ناف بال کو مونڈنا ہے۔
(3) مونچھوں کو تراشنا۔
یہ تین قسم کے بال وہ ہیں، جن کے بارے میں نص موجود ہے، باقی جسم کے دیگر بال ہیں، وہ اگر آپ کو تنگ نہیں کرتے ہیں تو آپ ان کو مونڈنے کے مکلف نہیں ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
مونچھوں کو پست کرنا، سر کے بال (یہ حکم میں بعد کے بالوں جیسے نہیں ہیں البتہ مونچھوں کو ہلکا کرنا ضروری ہے اور سر کے بال کاندھوں سے لمبے رکھنے خلاف سنت اور عورتوں سے مشابہت ہے)، بغلوں اور زیر ناف کے بال یہ اتارنا چالیس دن کے اندر فرض ہے اور جسم کے باقی بال اگر بہت زیادہ ہوں، جیسے سینہ، پیٹ، کندھے تو اتار سکتے ہیں اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
فطرت میں تین قسم کے بال پائے جاتے ہیں، جن میں دو قسم کے بالوں کے اتارنے یا نا اتارنے کے بارے میں شریعت نے ذکر کیا ہے۔ البتہ تیسری قسم کے بالوں پر شریعت خاموش ہے۔
جن بالوں کے اتارنے کا حکم ہے: ان میں بغلوں کے بال، زیر ناف بال اور مونچھوں کے کتروانے کا حکم ہے۔
اور مزید یہ کہ حج و عمرہ میں سر کے بالوں کو کاٹنا یا کتروانا ہے۔ اور بوقت ضرورت بھی ان کو کاٹا جا سکتا ہے۔
جن بالوں کو نا اتارنے کا حکم ہے: ان میں چہرے کے بال بشمول داڑھی، بھنویں پلکیں وغیرہ (الا یہ کہ خواتین کے ٹھوڑی کے بال مردوں کی داڑھی کے مشابہ ہو جائیں)
ان کے علاوہ باقی جسم کے بالوں کے اتارنے یا نا اتارنے کے متعلق شریعت خاموش ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث مجتبیٰ بن عارف حفظہ اللہ