سوال (4996)
اگر کسی کے جسم پر ٹیٹو بنا ہو وہ permanent ہو اور وہ وہ توبہ کر چکا ہو اس عمل سے، اُسے ہٹانا تکلیف دہ ہو۔ کیا اس کا وضو اور غسل ہو جایا کرے گا ٹیٹو کے ہوتے ہوئے بھی یہ ہٹانا ضروری ہے؟ دلیل سے جواب دے دیجئے گا۔
جواب
اہلِ علم کی رائے اس بارے میں یہ ہے کہ اگر کسی جسم پر موجود چیز (مثلاً ٹیٹو وغیرہ) کو مٹانا مشقت، تکلیف یا نقصان کا سبب بنے، تو ایسی حالت میں سچی توبہ اور استغفار کافی ہے، اسے زبردستی مٹانے یا کھرچوانے کی ضرورت نہیں۔ گدوانے کی ضرورت نہیں ہے، جسم کو خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا استدلال اس بات سے ہے کہ دین نے انسان کو اذیت میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔ اہلِ علم کا فتویٰ یہی ہے کہ ایسی صورت میں توبہ ہی کافی ہے۔
البتہ اگر بغیر کسی مشقت یا ضرر کے آسانی سے ہٹایا جا سکتا ہو، تو پھر اسے ہٹانا بہتر اور لازم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمائے اور استقامت عطا فرمائے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: اگر وہ ٹیٹو remove کروانے کی تکلیف برداشت کر سکتا ہو؟ تو پھر کیا حکم ہے؟
جواب: اگرچہ کچھ تکلیف برداشت ہو سکتی ہے، لیکن جب اہلِ علم نے معاملے کو سمجھ کر سہولت پر مبنی فتویٰ دے دیا ہو تو سختی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی شخص چاہے تو ذاتی طور پر اس سے آگے جا سکتا ہے، لیکن لازم نہیں، جہالت کے دور میں جو کچھ ہوا، اس پر اب توبہ ہی کافی ہے۔ کچھ چیزوں کا ازالہ ممکن ہوتا ہے ، کچھ کا نہیں ، اس لیے غیر ضروری طور پر خود کو تکلیف میں ڈالنا عقل مندی نہیں، بلکہ سہولت اور نرمی سے فائدہ اٹھانا چاہیے، شریعت کا مزاج بھی یہی ہے کہ فتوے آسانی پر دیے جاتے ہیں، سختی پر نہیں ، اس لیے جو سہولت دی گئی ہے، اسے قبول کرلیا جائے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اگر ٹیٹو ہٹانا تکلیف دہ ہو تو اسے ہٹانا واجب نہیں۔توبہ کر لینا کافی ہے۔اورٹیٹو کے ہوتے ہوئے بھی وضو اور غسل ہو جائے گا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دین میں سختی نہیں رکھی۔
وَمَا جَعَلَ عَلَيۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ مِنۡ حَرَجٍؕ (الحج: 78)
اللہ تعالیٰ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ عبد الباسط شیخ حفظہ اللہ
جسم کے کسی بھی حصے پر ٹیٹو بنانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے ٹیٹو بنانے سے منع کیا ہے بلکہ لعنت فرمائی ہے۔
سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَعَنَ اللَّهُ الوَاصِلَةَ وَالمُسْتَوْصِلَةَ، وَالوَاشِمَةَ وَالمُسْتَوْشِمَةَ (صحيح البخاري، اللباس: 5933)
اللہ تعالٰی نے بالوں کے ساتھ بال پیوند کرنے والی اور کروانے والی، نیز سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔
اگر کسی نے ٹیٹو بنانے کی حرمت کا پتہ ہونے کے باوجود اس گناہ کا ارتکاب کیا اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ اوراستغفار کرے۔
اگر وہ ٹیٹو آگ کے ساتھ یا کسی اور چیز سے ختم ہوسکتا ہے اورکسی نقصان کا اندیشہ بھی نہیں ہے تو اس ٹیٹو کو ختم کروائے، اگر اسے ختم کرنے سے انسان کو نقصان ہوسکتا ہے، جیسے کسی زخم لگنے کا خدشہ ہے یا جسم کے بدصورت ہونے کا ڈر ہے تو پھر اس کے باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ
اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو
فضیلۃ الباحث حافظ محمد عبداللہ حفظہ اللہ
سائل: اگر وہ انسان ساری عمر اس ڈر سے نہ ہٹوائے کے زخم کا اندیشہ ہے، جدھر ٹیٹو تھا اُدھر پانی بہائیں گے تو وہ مسح کے طور پر ہو جائے گا کیا؟ دراصل یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کے وضو کے لیے تو پانی بہانہ ضروری ہے جسم کے اجزاء پر وہ اس صورت میں اوپر پانی بہا لانا ہی کافی ہے؟ کیا وہ اس قید (طریقہ کار) سے آزاد ہو جائے گا جو عام مسلمان کرتا ہے کے وہ پانی سے سب کچھ دھوئے گا وضو کے لیے؟
جواب: دیکھیں وہ صرف اتنا ہی مکلف ہے کہ وہ اعضاء کو مسل کر دھوئے گا، اسی کیفیت کے ساتھ وضوء کرے گا، وضوء کے اعضاء کو صرف ملے گا، جیسا کہ ایک شخص کو نقلی دانت لگے ہوئے ہوں تو اس کو دانت نکالنے کا حکم نہیں ہے، بلکہ انہی دانتوں کے ساتھ کلی کرے گا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ