سوال (3918)
جو لوگ جگر کی پیوندکاری میں جگر عطیہ رشتے داروں کو کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم مر جائیں گے، کیا یہ جائز ہے، اس طرح عطیہ کر کے خود موت کے منہ میں چلے جانا صحیح ہے؟
جواب
اس میں دو مسئلے ہیں:
1۔ جسمانی اعضاء عطیہ کرنا اور پیوند کاری وغیرہ کرنا یا کروانا، اس حوالے علمائے کرام میں اختلاف ہے کہ کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ کئی ایک علمائے کرام نے اس سے منع کیا ہے، جیسا کہ مولانا محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کا ایک رسالہ ہے:’ انسانی اعضاء کی پیوندکاری اورانتقال خون کی شرعی حیثیت‘ جو کہ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ شیخ نے اس میں عدم جواز کا موقف اختیار کیا ہے، اور مجوزین کے دلائل کا جواب دیا ہے۔
بعض علمائے کرام کا یہ موقف ہے کہ ایسے اعضاء جو بعد میں خود بخود پورے ہو جاتے ہیں، جیسا کہ جگر وغیرہ، تو یہ عطیہ کرنا جائز ہے، جبکہ گردہ وغیرہ عطیہ کرنا جائز نہیں۔ جس لڑکی کی آپ بات کر رہے ہیں، اس نے جگر عطیہ کیا تھا۔
2۔ اگر کوئی شخص اپنا کوئی عضو عطیہ کرتے ہوئے خود وفات پا جاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہو گا؟ بظاہر یہی ہے کہ یہ خودکشی یا جان بوجھ کر موت کو گلے لگانے میں نہیں آئے گا، کیونکہ ٹرانسپلانٹ کی اجازت عموما ایک کڑے پروسیجر سے گزار کر دی جاتی ہے، جس میں ڈاکٹر حضرات اسی صورت میں اس کی اجازت دیتے ہیں جب انہیں غالب ظن ہوتا ہے کہ یہ ٹرانسپلانٹ کامیاب ہو جائے گا اور اس سے ڈونر یعنی عطیہ کرنے والے کی صحت پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ لیکن بہر صورت جس طرح کسی بھی شخص کے آپریشن میں کامیابی اور ناکامی دونوں امکانات موجود ہوتے ہیں، ٹرانسپلانٹ میں یہی امکان ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص جواز کے موقف پر عمل کرتے ہوئے کسی کو عطیہ کرتے ہوئے فوت ہو جاتا ہے تو وہ خودکشی وغیرہ کے زمرے میں نہیں آے گا. واللہ اعلم
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ