سوال (2321)
جسمانی سرجری کا کیا حکم ہے؟ آیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنے کے زمرے میں آئے گی؟
جواب
یہ طریقہ علاج ہے، اللہ تعالیٰ کی تخلیق تبدیل کرنے کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ
تفصیل طلب ہے، وضاحت ہونی چاہیے، کیونکہ سرجری کی اقسام ہیں ، کچھ کروائی اس لیے جاتی ہیں کہ بوڑھے نہ لگیں جیسا کہ پلاسٹک سرجری
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
عموما سرجری ضرورت اور مجبوری کی صورت میں بطور علاج کروانا شرعا جائز ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“عیوب کا خاتمہ جائز ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ میں جس شخص کی ناک کٹ گئی تھی اسے سونے کا ناک لگوانے کی اجازت دی تھی، اس لیے اس مسئلے میں کافی وسعت ہے؛ لہذا کاسمیٹک سرجری اور پلاسٹک سرجری بھی اس میں شامل ہو جائے گی۔ چنانچہ جو بھی سرجری کسی عیب کو ختم کرنے کے لیے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً: کسی کا ناک ٹیڑھا ہو تو اس کو ٹھیک کروایا جائے، یا سیاہ دھبوں کو ختم کروایا جائے یا اسی طرح کا کوئی عیب ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جو کام عیب زائل کرنے کے لیے نہ ہو مثلاً: اپنی جلد کو گدوانا یا ابرو سے بال نوچنا تو یہ منع ہے۔”
[مجموع الفتاوى: 11/93]
لیکن اگر سرجری ضرورت، مجبوری اور بطور علاج نہیں بلکہ شوقیہ ہے، مثلا مزید خوبصورتی، حسن اور بوڑھاپے کو چھپانے وغیرہ کیلیے کروائی جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کے زمرے میں آئے گی جو کہ شرعا جائز نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کے متعلق
ابلیس ملعون کے بارے میں بتلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّهِ” [النساء: 119]
کہ شیطان نے کہا: اور میں انہیں ضرور حکم کروں گا تو وہ اللہ تعالی کی تخلیق میں لازماً تبدیلی کریں گے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آ پﷺ لعنت فرما رہے تھے خوبصورتی کے لیے چہرے سے بال نوچنے والی اور دانتوں میں فاصلہ ڈالنے والی عورت پر کیونکہ یہ عورتیں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ [بخاری: 4507]
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ