سوال (6317)
امید ہے کہ آپ اور آپ کے اہلِ خانہ خیریت، صحت اور مضبوط ایمان کی حالت میں ہوں گے۔ کافی عرصہ ہوگیا ہے میں نے آپ سے رابطہ نہیں کیا، امید ہے آپ کے کام اور روزمرّہ کے تمام معاملات بخیر و خوبی گزر رہے ہوں گے۔
شیخ صاحب! مجھے ایک اہم مسئلے کے بارے میں آپ سے سوال کرنا ہے۔ یہاں لندن میں، ہماری میکس مسلم کمیونٹی میں جو مختلف پس منظر اور عرب کمیونٹی کے افراد پر مشتمل ہے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نمازِ جنازہ آہستہ اور خاموشی سے پڑھنی چاہیے، اور بلند آواز سے پڑھنا جائز نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں، اور جیسا کہ میں نے ہمارے برِّصغیر کے اہلِ حدیث علمائے کرام کا طریقہ دیکھا ہے، اور پڑھا ہے کہ وہ نمازِ جنازہ میں تکبیرات اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھتے ہیں، اور اسے جائز سمجھتے ہیں۔
براہ کرم آپ اس مسئلے کی صحیح وضاحت فرمائیں، اور حدیث، صحابہ کرام کے آثار، اور معتبر علمائے اہلِ سنت کے اقوال سے وہ دلائل پیش کریں جن سے نمازِ جنازہ میں آواز بلند کرنا ثابت ہوتا ہو۔ اگر آپ یہ دلائل عربی اور اردو میں بھیج سکیں تو بہت فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے، آپ کی صحت اور علم میں برکت دے اور آپ کو ہر خیر عطا فرمائے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ آپکا مخلص، ضیاءاللہ (یوکے سے)
جواب
جنازہ سری اور جہری یعنی آہستہ اور اونچی دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّهُ قَالَ: «السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ أَنْ يَقْرَأَ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً،ثُمَّ يُكَبِّرَ ثَلَاثًا،وَالتَّسْلِيمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ»
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھے،پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے بعد سلام پھیر دے۔ (سنن النسائي: 1991)
اسی طرح نماز جنازہ جہرا بھی پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے عمل سے ثابت ہے۔
طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں کہ
صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، قَالَ: لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ.
ہم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورة فاتحہ “ذرا بلند آواز سے” پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔ (صحیح البخاری: 1335)
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ




