سوال (6149)

کیا جنازے میں ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھ بلند کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے؟

جواب

جی، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اَثر ثابت ہے۔

 فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

سائل: شیخ جی، اثر تو ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کا بھی ہے؟
جواب: جب مرفوع اور موقوف کا اختلاف ہو یا موقوفات کا آپس میں اختلافات زیادہ ہو جائے تو مرفوع روایت کی طرف واپس لوٹنا واجب ہوجاتا ہے، ہاتھ چھوڑنے والی روایات کا ٹکراؤ ہاتھ باندھنے والی روایات سے ہے، وہ مرفوع روایات اثبت اور زیادہ ہیں، اس لیے ارسال الیدین کو چھوڑ دیا جائے گا، باقی مرفوع و موقوف کو بھی دیکھ لینا چاہیے، جب موقوفات کا بھی ٹکراؤ ہو، وہ بھی دیکھ لینا چاہیے، پھر ان موقوفات کو قبول کیا جائے گا جو مرفوعات سے موافقت رکھتی ہیں، اس تناظر میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ہاتھ باندھنے ہیں یا چھوڑنے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: تو پھر جنازے کی تکبیرات میں ہاتھ اٹھانے کی کوئی مرفوع احادیث ہیں جن پر عمل کیا جائے؟
جواب: ہمارے نزدیک تو روایت سنن بیہقی میں ہے کہ رکوع سے پہلے تمام تکبیرات میں رفع الیدین کرتے تھے، روایت کو علماء نے قبول کیا ہے، شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے بھی قبول کیا ہے، کافی علماء نے اس کو قبول کیا ہے، اگر نہ بھی قبول کیا ہو تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی موقوف روایت کافی ہے، اس کی مخالفت دیکھائی جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ