سوال (4895)
“مفہوم حدیث جو دورود پڑھنا بھول گیا وہ جنت کا راستہ بھول گیا” کیا یہ الفاظ درست ہیں؟
جواب
جی ہاں یہ الفاظ درست ہیں، سنن ابن ماجہ میں907 نمبر پر حدیث ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَسِيَ الصَّلَاةَ عَلَيَّ، خَطِئَ طَرِيقَ الْجَنَّةِ»
۔۔۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
فضیلۃ العالم امان اللہ عاصم حفظہ اللہ
یہ روایت ثابت نہیں۔
حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ،عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّی الله عَلَيْه وَسَلَّمَ: مَنْ نَسِيَ الصَّلَاةَ عَلَيَّ،خَطِئَ طَرِيقَ الْجَنَّةِ،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، *رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے مجھ پر درود پڑھنا فراموش کر دیا،وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔‘‘ [ابن ماجہ: 908]
جبارہ بن مغلس سخت مجروح راوی ہے۔
سندہ، ضعیف جدا
تنبیہ: درود پڑھنے کے فضائل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام/ذکر آنے پر درود نہ پڑھنے کے حوالے سے کئی صحیح احادیث موجود ہیں۔
1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آنے کے باوجود جو درود نہ پڑھے ایسے شخص کے لیے جبرائیل علیہ السلام نے بدعا کی کہ اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کردے(محروم کردے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر امین کہا۔ (المعجم الاوسط #8131، سندہ حسن)
2: ترمذی : 484
أَنَّ *رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَوْلَی النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُہُمْ عَلَيَّ صَلَاةً
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ(درود) بھیجے گا۔ [سندہ ، حسن]
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ
بارك الله فيكم وعافاكم
اس کے علاوہ یہ روایت جن کئ اسانید کے ساتھ بیان ہوئی ہے وہ علی الراجح مرسل و معلول ہے۔
کیونکہ اکثر و أحفظ اسے مرسلا بیان کرتے ہیں اور جس نے اسے موصولا بیان کیا ہے اس سے خطاء ہوئی ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
یہ سوال پچھلے سال بھی آیا تھا، حافظ ابن حجر، شیخ البانی وغیرہ اہل علم کے نزدیک یہ روایت حسن درجے سے کم نہیں ہے۔ جن اہل علم نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، انہوں نے کسی ایک سند یا بعض اسانید پر کلام کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
حالانکہ اس حدیث کے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہٹ کر دیگر شواہد ہیں، جن میں وصل و ارسال کا اختلاف سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی سند کم از کم حسن درجے کی ہے۔
أخرجه ابن الأعرابي عن محمد بن سليمان الباغندي عن عمر بن حفص بن غياث عن أبيه عن محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال رسول الله…فذكره بمثله.(معجمه(1/ 200)(355)، وأخرجه البيهقي من طريق محمد بن سليمان به مثله.
محمد بن سليمان هو أبوبكر الباغندي الكبير، قال الدارقطني: لابأس به، وقال الخطيب: رواياته كلها مستقيمة ولا أعلم في حديثه منكرا.(انظر:تاريخ بغداد(3/226)(822)، فهو حسن الحديث.
وعمر بن حفص ثقة.(التقريب(ص: 716)( 4880)، وأبوه حفص بن غياث من الثقات الأثبات، ومحمد بن عمرو صدوق، وأبو سلمة ثقة. فإسناده حسن.
بعض نے اس میں ابوبکر الباغندی پر اعتراض کیا ہے، حالانکہ اس کی بھی متابعت موجود ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ سے پہلے بھی بعض اہل علم اس کی تحسین کر چکے ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر (فتح الباری:13/ 421) اور ان سے پہلے حافظ ابن کثیر تفسیر میں، اور الرشید العطار وغیرہ جیسا کہ القول البدیع میں ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
الله يبارك فيك ويرضيك
یہی سند علی الراجح مرسل و معلول ہے ، آپ تفصیل سے دراسہ کر کے دیکھ لیں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ