جو حدیث سے جڑ گیا!

حدیث کا اعجاز یہ ہے کہ اس کے ساتھ جڑنے والے شخص کا نام دائم تابندہ اور امر ہو رہتا ہے۔ رہتی دنیا تک حدیث کا اسلوب یہ رہے گا کہ پہلے حدیث سے جڑنے والوں کے نام آئیں گے اور پھر حدیث رسول ذکر ہوگی۔ اللہ اللہ کیسا اعجاز اور کیسا افتخار، نبی کی بات سے پہلے منبر و محراب میں کسی شخض کا نام گونجنا کوئی کم سعادت ہے کیا؟
پھر اس سلسلے سے جڑنے کا اعجاز اور افتخار دیکھئے کہ حدیث کی سند کے ایک سرے پر حدیث بیان کرنے والے راوی کا نام ہوتا ہے اور دوسرے سرے پر خود رسول کریم کا۔ دنیا مٹ گئی،شاہ نابود ہو گئے،جلال و کمال والے تاریخ کا کوڑا ہو گئے،مگر آج بھی منبر و محراب پر حدیث سے جڑنے والوں کے نام کا نغمہ گونجتا ہے۔ حدیث بعد میں بیان ہوتی ہے، پہلے کہا جاتا ہے، عن ابی ہریرہ، عن عبداللہ ،عن فلاں اور عن فلاں ۔۔۔
واقعہ یہ ہے کہ حدیث کے ساتھ جو جتنا جڑ گیا،اس کا نام اتنا ہی سربلند اور رفیع الشان ہوگیا۔
ذرا غور کیجئے کہ امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری کا نام صحیح بخاری نہیں رکھا تھا، امام بخاری نے تو اس کتاب کا یہ نام رکھا تھا،
“الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم وسننہ وأيامہ”
لیکن خدا نے یہ چاہا کہ اس کے رسول کی احادیث پر مشتمل سب سے مشہور اور سب سے مستند کتاب، اس کتاب کے مولف اور خادم کے نام سے جانی جائے،چنانچہ آج ہر شخص امام بخاری کا رکھا نام بھول کے کہتا ہے،صحیح بخاری۔
جانے کتنے سکالر آئیں گے اور چلے جائیں گے، ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے نام علمی دنیا سے یوں غائب ہوں کہ نام تک باقی نہ رہے،مگر جہاں جہاں حدیث بیان ہوگی۔وہاں وہاں کہا جاتا رہے گا۔
صححہ الالبانی اور ضعفہ الالبانی۔۔
یہ حدیث کا اعجاز ہے، یہ نبی کی دعائے برکت کا امتیاز ہے۔ فرمان ہے، اس شخص کا چہرہ تروتازہ رہے، جو میری حدیث سنے اور پھر بعینہ آگے پہنچا دے۔
یہ بشارت بھی ہے اور پیشین گوئی بھی۔ کہ حدیث کے حافظوں اور حدیث کے خادموں کے چہرے تروتازہ رہیں گے۔ ان کے نام زمانوں تک گونجتے رہیں گے۔
ان شااللہ

یوسف سراج حفظہ اللہ